پہیہ

ستمبر 2022

صبح کا وقت تھا۔ ایک جوان عورت اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ تفریح کر رہی تھی۔ بچہ ایک پہیے کو لکڑی سے ڈھکیلتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ دونوں خوش و خرم نظر آ رہے تھے۔ بچہ نیا نیا پہیہ پا کر خوش تھا اور عورت بھی اس کی خوشی میں برابر کی شریک تھی۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ پھولی نہ سماتی تھی اور بار بار بچے کو محبت آمیز نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
گلی کے موڑ پر ایک غریب بوڑھا میلے کچیلے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ دونوں کو آتا دیکھ کر وہ ذرا دب کر دیوار کے قریب ہو گیا اور اپنی بے رونق آنکھوں سے بچے کو بہ غور دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور غائب ہو گئی اور وہ پھر اپنے خیالات میں گم ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا…
کتنا خوش ہے یہ بچہ۔ ننھے ننھے قدموں سے پہیے کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور پھولا نہیں سماتا ہے۔ ”
معلوم نہیں کیوں آج اس کا تصور اسی منظر کے چاروں طرف گردش کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا… “کیسی اچھی زندگی ہے ان دونوں کی۔ کتنی مسرت حاصل ہے ان دونوں کو۔ بچوں کو لوگ شریر کہتے ہیں۔ ایک یہ بچہ ہے جس کو ماں کی محبت حاصل ہے۔ بجائے ناراض ہونے کے اس کی ماں کس قدر محبت سے اس کو دیکھ رہی ہے۔ کتنا خوش قسمت ہے۔ ایک میں تھا… مسرت سے محروم… ناشاد و ناکام…خدا کا مقہور… خلق کا مطعون…نہ کوئی عیش تھا نہ آرام۔ نہ ہی میں نے پہیے سے دل بہلایا، نہ کبھی کوئی اور کھیل کھیلا۔ یہ تو خوش حال بچوں کے کھیل ہیں۔ اور میں… کس قدر غریب تھا میں… اور کتنی مصیبت میں میری زندگی کٹتی تھی۔ ”
ما ضی کی دھندلی یادوں کے نقوش اس کے ذہن پر ابھرتے ہی رہے۔ پھر وہ خود ہی اپنی اس حماقت پر اپنا پوپلا منہ کھول کر ہنسنے لگا۔ لیکن اس کا تصور شاید آج سرکشی پر آمادہ تھا۔
فیکٹری میں بھی اس کا ذہن اس منظر کو بھول نہ سکا۔ اسی فیکٹری میں وہ بچپن سے کام کر رہا تھا۔ مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ بھی اس کی توجہ کو کسی دوسری طرف منعطف نہ کر سکی۔
“بچہ، پہیہ، اس کی ماں… ” اس کے دماغ کی سطح پر رہ رہ کر یہی چیزیں ابھرتیں۔ تھوڑی دیر کے لیے تخیل کی پرواز رک جاتی۔ اور پھر وہ سوچنے لگتا… “بچہ، پہیہ، اس کی ماں…”
رات کو خواب میں بھی اس نے بچے ہی کو دیکھا۔
دوسرے دن صبح کو بھی اس کا ذہن بدستور اسی محور کے چاروں طرف گردش کر رہا تھا۔
مشینوں کی کھڑکھڑاہٹ جاری تھی۔ چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ مزدور اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ غریب پیٹ کی روٹی کے واسطے برابر مشقت کر رہے تھے۔ کارخانے میں دھواں سے تاریکی پھیلی ہوئی تھی لیکن کام جاری تھا…اور بوڑھے کا تصور اپنی پرواز میں مصروف تھا۔
ایک روز شام کو بوڑھا کام پر سے لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اسے پہیے کی شکل کا ایک ٹوٹا پیپا نظر آیا۔ وہ بہت خوش ہوا اور کسی نا معلوم خیال کے ماتحت خاموشی سے اسے لے کر چلتا بنا۔
راستے میں نہ کوئی اسے ملا اور نہ کسی نے اس سے کچھ پوچھا۔ پوچھتا بھی کیوں؟ ایک غریب بوڑھا ٹین کا ایک گول ٹکڑا لیے جا رہا ہے۔ کسی کو اس سے کیا غرض؟ پھر بھی وہ لوگوں کے لعن طعن سے ڈر رہا تھا۔ کوئی جو اس سے کچھ دریافت کرنے لگاتو… لیکن وہ خود بھی اپنی اس حرکت کے سبب سے ناواقف تھا۔ سوائے اس کے کہ یہ پہیہ بچے کے پہیے سے مشابہت رکھتا تھا۔ اور برابر اس کے تصور کے لیے تازیانے کا کام کرتا رہے گا۔
گھر پہنچ کر بوڑھے نے پہیے کو اپنے بستر کے قریب رکھ دیا۔
صبح کا وقت تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ فضا میں لطیف ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ بوڑھا اٹھا اور پہیہ لے کر شہر کے باہر میدان کی طرف روانہ ہو گیا۔ راستے کے دونوں طرف درخت خاموشی سے کھڑے مانو اپنے خالق کی عبادت میں مصروف تھے۔ بوڑھا سوکھی پتیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
میدان میں پہنچتے ہی اس نے پہیہ چلانا شروع کر دیا۔ اس وقت اس کے چہرے پر ایک عجیب رونق تھی۔ وہی رونق جو ایک معصوم بچے کے چہرے پر ہوتی ہے جب وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو جاتا ہے… ایک فاتحانہ رونق…
وہ بدستور پہیے کے ساتھ دوڑتا رہا۔ معلوم نہیں کب تک؟ آج اس کو اس میں ایک غیرمعمولی خوشی حاصل ہو رہی تھی۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس کی ماں اسی محبت پاش نظروں سے دیکھتی ہوئی اس کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔
پہیے کا کھیل صبح کے وقت بوڑھے کا محبوب مشغلہ ہو گیا۔ اسے برابر اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔ لیکن نہیں۔ ایسا واقعہ کسی بھی دن پیش نہ آیا۔ وہ روز صبح کو اسی میدان میں آتا اور کھیلنے کے بعد گھر لوٹ جاتا تھا۔
لیکن ایک روز صبح کو بوڑھا بری طرح سردی کھا گیا اور فیکٹری کے اسپتال میں مر گیا۔
اس کے ذہن میں برابر نقوش ابھرتے اور مٹتے رہتے تھے۔ وہ بھی کسی زمانے میں بچہ تھا اور ہری ہری گھاس پر اپنی ماں کے ساتھ کھیلا کودا کرتا تھا۔ یہی مبہم سا تصور آخری وقت تک اس کا رفیق رہا۔ 
Assistant Professor
Dept. of English, MANNU, Lucknow Campus

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ