سنتے ہیں کہ وعدہ نبھانا انسانی زندگی میں بڑی اہم چیز ہے۔ اور وعدہ کرنا اس سے بھی زیادہ وقیع امر ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا اس لیے عوام کے لیڈر اور محب وطن سب سے زیادہ عوام سے وعدے کرتے ہیں۔ مگر ان وعدوں کی عمر بس الیکش سے کرسی تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد وعدہ عمر کے اس مرحلے میں داخل ہوتا ہے جس کو عرصۂ وعدہ خلافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ وعدہ خلافی کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کیوں کہ وعدہ وفا کرنے میں تو پسینے چھوٹتے ہیں اور پسینے میں نہانا کوئی بھی دانش مند لیڈر تو کجا ہمارے عوام بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس لیے ان کے اس انحراف کو کھلے دل سے درگزر کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
قارئین! اگر آپ میری اس بات پر یقین کرنے میں کسی تذبذب کا شکار ہیں تو ماضی قریب میں پلٹ کر لیڈروں کو وعدوں اور عوام کے رویۂ درگزر پر نظر ڈال لیجیے۔ ایک نمائندے نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ آپ مجھے کرسی دیجیے یعنی جتا کر کرسی تک بھیجیے میں آپ کی جیبیں بلکہ کاؤنٹ دھن سے بھر دوں گا۔ اکاؤنٹ اس لیے درکار تھا کہ جیبیں اس کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں اور پھر یہ کہ جیبیں سفر و حضر میں غیر محفوظ بھی ہوتی ہیں۔ ان کے وعدوں سے جیبیں تو کیا بھرتیں بلکہ خالی اور ہوتی گئیں۔ اس لیے عوام نے ان کے پچھلے وعدوں پر خاک ڈال کر چشم پوشی کرتے ہوئے آئندہ وعدوں کے لیے آنکھیں بچھا دیں۔ اس بات کو ہمارے ملک کے عوام کی کم زوری پر محمول نہ کیا جائے بلکہ دریا دلی اور عفو و درگزر کی مستحسن صفات کے خانے میں رکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس لیے کہ یہ تہذیب مشرق کا اصول زریں ہے۔ آپ چاہیں تو اس کا منبع مذہبی تعلیمات کو بھی قرار دے سکتے ہیں۔
بات چل رہی تھی وعدہ خلافی کی اور میں کہاں سے کہاں جا پہنچا۔ ہاں تو وعدہ خلافی کے لیے بڑی ہوشیاری، زیرکی (آپ چاہیں تو عیاری و مکاری بھی کہہ سکتے ہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں) درکار ہوتی ہے۔ اس لیے کہ پچھلے وعدوں سے ذہنوں کو موڑنا اور یہ کوشش کرنا کہ پچھلے وعدے یاد ہی نہ رہیں کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑی پلاننگ کرنی پڑتی ہے اور نئے وعدوں کا تانا بانا اس طور سے تیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ پچھلے تمام وعدوں کی ذہن پر گرد تک باقی نہ رہے۔ اس کے لیے نئے خوش نما وعدوں کا پٹارا ہر چند ہفتوں کے بعد کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیا جانا ضروری ہوتا ہے جس کی آس کے سائے میں عوام کچھ دن اور گزارنے کے متحمل ہو جاتے ہیں۔ اس عمل میں ہمارے ”وعدہ گر” بڑے مشاق واقع ہوئے ہیں۔
قارئین! وعدہ نبھانے کے سلسلے میں دوسروں کے متعلق تو میں میں کلام کرنے کا اپنے آپ کو بالل مستحق نہیں سمجھتا۔ ہاں آپ سے یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ کبھی وعدہ وفا نہیں کروں گا۔ اگر وفا کروں تو یہ وعدہ خلافی ہوگی۔ جس کا مرتکب ہونا میں ہرگز ہرگز پسند نہیں کرتا۔ امید ہے آپ مجھے معاف فرمائیں گئے اور آئندہ بھی معاف کرتے رہنے کا مجھ سے پکا وعدہ کریں گے۔ شکریہ۔
Dilshad Husain Islahi, D-321, Dawat Nagar, Abul Fazal Enclave Part 1, Jamia Nagar, Okhla, New Delhi – 1100254