کتاب کا نام: ورق ورق چہرے (خاکے)
مصنف: منظور وقار
صفحات: 304
مبصر: سراج وجیہی تیر انداز، گلبرگہ (کرناٹک)، 9902561191
مطبع: اپلا ئیڈ بکس (نئی دہلی)
”ورق ورق چہرے” معروف ادیب و طنز و مزاح نگار منظور وقار کے خاکوں پر مشتمل ضخیم تصنیف ہے۔ منظور وقار نے طنز و مزاح، مضامین اور انشائیوں کے ذریعے اپنی ایک الگ پہچان بنالی ہے۔ اپنے طنز و مزاح سے ایک نئے اسلوب کو جنم دیا ہے۔ ان کی نثری تحریروں میں جدت طرازی، استدلال، طنز کی ہلکی پھلکی چوٹ، مزاح کی مہک پائی جاتی ہے۔ بے با کانا رویے کے انداز، اخلاقی جہت کے احساسات صاف محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ نثر کی خوبی زبان و بیان کی وضع داری نے اُنھیں ادب میں ایک منفرد شناخت عطا کی ہے۔ تحریروں میں علمی تجربہ بولتا ہے۔ منظور وقارکی وسعتِ علمی اور مطالعے کا احساس ہر سطر سے جھلکتا ہے۔ اُن کی تحریروں میں کسی نہ کسی ہمہ گیر تحریک، فکرِ حیات کے نکات پوشیدہ ہوتے ہیں جو مستقبل میں قاری کے لیے قابل تقلید عمل ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے عصری رحجانات پر مبنی موضوعات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ فکر مندی اور نظریات دانش ورانہ خصوصیات کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ طرز تحریر میں ظرافت و شگفتگی بخشی ہے۔ جامعیت کے عنصر اُبھر کر نظر آنے لگتے ہیں تو قلم کار کا یہ کمال ادبی حُسن اور وقار بڑھا دیتا ہے۔ منظور وقار ہمہ جہت قلم کار ہیں۔ عصری ادب کے قائل ہیں۔ اپنی تخلیقات میں خوش گوار تبدیلیاں لایا کرتے ہیں۔ خاکہ نگاری کے کلاسیکی باب میں منظور وقار کو ایک نمایاں مرتبہ حاصل ہے۔ پانچ کتابوں کے منصف ہیں ”مسکرانا منع ہے” ، ”ہنسنا منع ہے” ان کی طنز و مزاح پر کام یاب تصانیف ہیں۔ ”کانٹوں کا جھنڈ” افسانچوں کا مجموعہ ہے۔ زیرہ تبصرہ کتاب ”ورق ورق چہرے” (خاکے) 2019 میں منظر عام پر آچکی ہے۔ پانچویں کتاب ”ہوا محل” کے نام سے بچوں کی دل چسپ کہانیوں کا مجموعہ دسمبر 2021 میں منظر پر آئی۔ ادب کے کوچوں سے نکل کر بچوں کے تعمیری پہلو کو لے کر ادب کے پُل صراط پر سے بھی یہ گزر گئے۔
”ورق ورق چہرے” خاکوں کے مجموعے میں جملہ 52 خاکے شامل ہیں۔ جس کے تین باب تین الگ لگ عنوانات کے ذریعے ترتیب دیے گئے ہیں۔ بابِ اول کا عنوان ”آفتاب ہیں ہم لوگ” دیا گیا ہے۔ اس کے تحت 29خاکے ادبی شخصیات پر ہیں۔ ان کے ادبی کارناموں تعمیری پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے خاکہ نگار منظور وقار نے رابطے و تعلقات، حُلیے و لباس کی بڑی عمدگی سے تصویر کشی کی ہے۔
دوسرے باب کا عنوان ”فسانہ ہیں ہم لوگ” ہے۔ جو یادرفتگاں کے تحت اُن ادبا و شعرا کے حالات اور اُن کی ادبی تاریخ کو خاکہ نگار نے قلم بند کیا ہے جو اس دنیا سے جاچکے ہیں۔
تیسرے عنوان ”لا جواب ہیں ہم لوگ” کے تحت تقریباً دو درجن مختصر خاکے مشاہیر ادب کے ہیں۔ ایک تحقیقی و اصلاحی تذکرہ ہے جو یادگار باب بن گیا ہے۔
کتاب کی شروعات میں دو تہنیتی قطعات معروف شاعر پروفیسر مقبول احمد مقبول کے جُھومر کی طرح ہیں، جو منظور وقار کا تعارف پیش کر رہے ہیں۔ اس کا عنوان ”اعترافیہ” دیا گیا ہے۔
”ورق ورق چہرے” کے حرفِ آغاز پر منظور وقار خاکوں کا معتبرعنوان دیتے ہوئے ڈاکٹر انیس صدیقی نے تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بتایا ہے کہ اُردو میں خاکہ نگاری کا فن بالخصوص مشرقی طرزِ معاشرت اور رکھ رکھاؤ پر استوار رہا ہے۔
”ورق ورق چہرے” کے تمہیدی کلمات تحریر کرتے ہوئے ڈاکٹر غضنفر اقبال لکھتے ہیں ”منظور وقار اب تک 200 افسانے تخلیق کر چکے ہیں۔ افسانچوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ جو گیندر پال، انتظار حُسین، بلراج مین را، انوار سجاد، سریندر پرکاش، قمر احسن اور حمید سہروردی کے افسانے انھیں پسند ہیں۔ منظور وقار کو جو گیندر پال کا آشیرواد حاصل ہے۔”
”ورق ورق چہرے”کے آغاز پر تیسرا مضمون بہ عنوان منظور وقار کے خاکے مشاہیر کی سوچ و ترنگ ہے جس کو واجد اختر صدیقی نے ترتیب دیا ہے۔
”ورق ورق چہرے” کے پس ورق پر وہاب عندلیب سابق صدر کرناٹک اُردو اکیڈیمی نے حتمی مہر یوں ثبت کیا ہے: ”ادب میں خاکہ نگاری کا فن تیزی سے مقبولیت کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جنوبی ہند بالعموم علاقہ گلبرگہ بالخصوص خاکہ نگاری کا اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔ یہی گلبرگہ معروف ادیب منظور وقار کا بھی وطن مالوف ہے۔ مجھے اُمید ہی نہیں یقین ہے کہ وہ اپنی گل افشاں تحریر کے ذریعے خاکہ نگاری کے شعبے میں مزید نمایاں جوہر اجاگر کریں گے۔” طباعتی خوبیوں اور ظاہری حُسن سے قطع نظر منظور وقار کی نگاہ محاسبہ نے ”ورق ورق چہرے” کو ایک دستاویزی تصنیف بنا دیا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ خاکہ نگاری کا فن جتنا مشکل ہے، اتنا ہی اہمیت کا حامل بھی۔ آج کا ادب عصری حالات کے بحران سے گزر رہا ہے۔ ان کے خاکوں میں عصری حالات کی جھلکیاں بھی کہیں کہیں دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے ہر خاکے میں کہاوتوں، دلیلوں اور استعاروں کی رنگا رنگی موجود ہے۔ منظور وقار مزدور پیشہ لوگوں، محنت کش اور کم پڑھے لکھے لوگوں میں گھل مل جاتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ ان کی تحریروں میں عام بول چال کی زبان اور مکالمے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے خاکوں میں طنز و مزاح اور شوخی کی رمق کچھ اس طرح سرایت ہے کہ خاکے دل چسپ، پر لطف اور پر مزاح بن گئے ہیں۔
منظور وقار ایک زود نویس قلم کار ہیں۔ وہ قلم برداشتہ لکھ سکتے ہیں۔ تقریباً ہر روز ملک کے کسی نہ کسی رسالے یا اخبار میں چھپتے ہیں۔ ان کے لکھنے اور چھپنے کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ ان کی تخلیقات کو قارئین کے علاوہ اخبارات اور رسائل کے مدیران بھی خوب پسند کرتے ہیں۔ ورق ورق چہرے، منظور وقار کے رواں دواں دل چسپ اور دل کش خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جسے ہم منظور وقار کی صلاحیتوں، و مشاہدوں کا شان دار عکس کہہ سکتے ہیں۔ اُمید ہے کہ کتاب کو ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملے گی ۔