نعت ایک موضوعاتی صنفِ سخن ہے جس کے لیے کوئی ہیئت مخصوص نہیں۔ ہمارے شعرا نے مثنوی، قصیدہ، غزل، گیت، نظم وغیرہ مختلف ہیئتوں میں نعتیں کہی ہیں۔
نعت میں پیش کیے جانے والے مضامین کی بنیاد پر ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق اور دیگر کئی ادبی ماہرین نے نعت کی یا نعتیہ اشعار کی دو اقسام بیان کی ہیں:
1) رسمی نعت یا خالص عقیدت پر مبنی نعت
2) مقصدی نعت یعنی جس میں حضور کے مقصدِ بعثت کو پیش کرکے اصلاحِ معاشرہ کا کام لیا جائے۔
نعت کا فن انتہائی مشکل ہے۔ عرفی جیسا عظیم شاعر نعت کے تعلق سے یوں کہتا ہے:
عرفی مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا ست
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قلم را
اے عرفی جلدی مت کر یہ نعت کی شاہ راہ ہے، کوئی صحرا نہیں۔ یہاں تو قلم کو تلوار کی دھار پر چل کر راستہ طے کرنا ہے۔
ہمارے عہد میں جن چنندہ لوگوں نے اس فن میں ایک کام یاب سفر کیا ہے، ان میں ایک اہم نام مظفر وارثی مرحوم کا ہے۔
مظفر وارثی کا تعارف:
مظفر وارثی کا اصل نام محمد مظفر الدین صدیقی ہے۔ ان کی ولادت 23 دسمبر 1933 کو ہندستان کے معروف صوفی شاعر شرف الدین صدیقی کے گھر ہوئی۔ آزادی کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرکے پہلے کراچی اور بعد میں لاہور منتقل ہوگیا۔ مظفر وارثی نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی اور اپنی ادبی زندگی کا آغاز غزل گو شاعر کے طور پر کیا اور بہت جلد فلمی دنیا تک ان کی رسائی ہوگئی۔ انھوں نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے لیکن خاندان کے ماحول اور روح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انھوں نے جلد ہی فلمی دنیا کو ٹھو کر مار دی اور نعت کی جانب ہجرت کی۔ انھوں نے عشقِ رسولؐ اور اپنے منفرد اسلوب کے سبب جلد ہی نعت کے میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا اور حسان العصر کہلائے۔ مظفر وارثی کی نعتیہ شاعری عقیدت و مقصدیت کا ایک حسین امتزاج ہے۔
‘بابِ حرم’، ‘کعبۂ عشق’، ‘نورِ ازل’، ‘امی لقبی’، ‘تاجدارِ حرم’، ‘دل سے درِ نبی تک’، ‘صاحب التاج’، ‘میرے اچھے رسولؐ’ ان کے نعتیہ مجموعے ہیں۔ جنھیں ‘دریائے نور’کے نام سے یکجا بھی کیا گیا۔ مظفر وارثی کا انتقال 28 جنوری 2011 کو لاہور میں ہوا۔
عشقِ رسولؐ کی کیفیات:
عشقِ رسولؐ نعتیہ شاعری ہی نہیں بلکہ ہمارے ایمان کی جان ہے۔ جس طرح غزل میں عمومی طور پر عشقِ مجازی کی مختلف کیفیات کو رقم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نعت میں بنیادی طور پر نبی اکرم کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ عشقِ رسولؐ کی مختلف کیفیات کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مظفر وارثی نے بھی اپنی نعتوں میں عشقِ رسولؐ کی مختلف کیفیات کو انتہائی خوب صورتی اور سچائی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی نعتوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان کا عشق رسمی یا سطحی نہیں بلکہ انتہائی گہرا اور شعوری ہے۔
اپنے محبوب نبی کی یاد کو دل میں بسا لینا، ان کے غم میں آنسو بہانا، ان کے ہجر میں تڑپنا وہ کیفیات ہیں جو تقریباً تمام نعت گو شعرا کے یہاں ملتی ہیں۔ لیکن مظفر وارثی کی نعتوں میں ان کیفیات میں جو شدت نظر آتی ہے، وہ کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مظفر وارثی نے اپنی تخلیقی زندگی کا آغاز غزل سے کیا تھا اور ان کی غزلوں میں جو سوز تھا وہ پاکیزگی اور شدت کے ساتھ ان کی نعتوں میں بھی شامل ہوگیا۔
اس پرسوز اسلوب کے ساتھ ساتھ حق تعالٰی نے انھیں بہت ہی پرسوز ترنم بھی عطا کیا تھا، جو دلوں پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دیا کرتا۔
آئیے اب ان کے چند اشعار کے حوالے سے ان کی تڑپ کو محسوس کرتے ہیں:
کبھی جو خشک نہ ہو ایسی چشمِ نم دے دے
کہ آنسوؤں سے مجھے دل کی بات لکھنی ہے
یہ میرے آنسو خراج میرا، مرا تڑپنا علاج میرا
مرض مرا اس مقام پر ہے جہاں کوئی چارہ گر نہ ٹھہرے
متاعِ اشک بھی آقا قبول ہے مجھ کو
تصور اپنا مگر چشمِ نم میں رکھ دینا
نعتیہ شاعری میں اس غمِ ہجر کے علاوہ حضور سے ملاقات کی کیفیات و مناظر بھی ملتے ہیں جن میں حضور کے روضے پر حاضری، حضور کا خواب میں دیدار، میدانِ حشر میں حضور سے ملاقات کا تخیلاتی منظر وغیرہ بہت عام ہیں جو مظفر وارثی کے یہاں بھی ملتے ہیں لیکن اس معاملے میں ان کے یہاں ایک بالکل منفرد انداز بھی نظر آتا ہے:
ضمیر و ذہن کو سیراب کرتی رہتی ہے
مرے لہو سے گزرتی ہے آبجوئے رسولؐ
زیارت کر چکی بیدار خوابی یا رسولؐ اللہ
مری اندر کی آنکھیں ہیں صحابی یا رسولؐ اللہ
میں وادیِ حرم تک اسے ڈھونڈنے گیا
آواز دی تو اپنے ہی اندر ملا مجھے
دراصل یہ عشق کی وہ اعلیٰ کیفیت ہے کہ جب عاشق محبوب کے رنگ میں پوری طرح رنگ جاتا ہے اور پھر وہ اپنے دل کے اندر ہی اپنے محبوب کی جھلک پالیتا ہے۔
عشق اور خرد کی جنگ ہماری اردو شاعری کا ایک اہم مضمون ہے۔ عشق جنوں پسند ہوتا ہے اور خرد مصلحت پسند۔ مظفر وارثی کے کلام میں بھی عشق، جنوں اور خرد سے متعلق روایتی مضامین تو ملتے ہیں لیکن کہیں کہیں عشق میں جنون و خرد کا ایک بالکل عجیب امتزاج بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو ان کے عشقِ رسولؐ کے شعوری ہونے کی مستند دلیل ہے۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
جلوسِ عشقِ نبی کا ہو جس طرف سے گزر
مرے جنوں کو بھی لے کر خرد پہنچتی ہے
جنون و خرد کی یک جائی قابلِ دید ہے۔
عشق کی سب سے آخری منزل وہ ہے کہ جہاں عاشق خود کو اپنے محبوب کی راہ میں فنا کر دیتا ہے۔ یہ مضمون بارہا مظفر وارثی کے کلام میں پوری شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ اور نہ صرف نعت بلکہ ان کی مناجات میں بھی یہ دعا ملتی ہے کہ
میں خاک پائے محمدی ہوں
امامِ عالم کا مقتدی ہوں
مجھے فنا فی الرسول کرنا
مجھے بھی یارب قبول کرنا
سیرت کا انقلابی پہلو:
مندرجہ بالا سطور میں جس عشقِ رسولؐ کا تفصیلی ذکر ہوا ہے، اس کا سب سے اصل تقاضا اپنے محبوب کے مشن کو اپنا مشن بنالینا ہے اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسولؐ اکرم صرف ایک مبلغ، زاہد و عابد ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے عظیم انقلابی شخصیت ہیں۔ آپ نے نبوت کی صرف 23 سالہ زندگی میں دنیا کا عظیم ترین انقلاب برپا کیا، عرب کی زمین پر اسلامی قوانین کو نافذ کیا اور وہ انسان جو اسفل السافلین کے مقام تک پہنچ چکا تھا، اسے دوبارہ احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کیا۔ لہٰذا نعت میں سیرتِ رسولؐ کے اس انقلابی پہلو کو بیان کرکے اس کے ذریعے حضوؐر کے امتیوں کو عظیم انقلاب برپا کرنے کے لیے آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ جو مقصدی نعت کے ذیل میں آتا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے بہت کم نعت گو شعرا نے اس پہلو پر توجہ دی ہے۔ مظفر وارثی نے اپنی نعتوں میں سیرت کے اس انقلابی پہلو کو کثرت سے پیش کیا ہے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت “مِرا پیمبر عظیم تر ہے” سیرت کے انقلابی پہلو کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ ایک بند ملاحظہ کیجیے:
شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
کچھ اور نعتوں کے اشعار دیکھیے:
وہ اپنے پیٹ سے فاقوں میں باندھ کر پتھر
ضعیف کو بھی ارادے جوان دیتا ہے
شہہِ کونین کی فاقہ کشی سے
میں اپنی روح کی خوراک لوں گا
یہ شعر جہاں حضورﷺ سے ترغیب و تحریک حاصل کرنے کی بہترین مثال ہے وہیں اس میں فاقہ کشی اور خوراک کے تضاد نے مزید حسن پیدا کردیا ہے۔
اسی طرح یہ خوب صورت اور دل کو گرما دینے والی خواہش بھی قابلِ دید ہے:
ہماری آہٹیں بھی اپنے رستے پر لگا دیجے
ہوں ہم بھی آپ جیسے انقلابی یا رسولؐ اللہ
خلاصہ: مظفر وارثی آسمانِ نعت کا ایک روشن ستارہ ہیں۔ میں نے اس مختصر سے مضمون میں ان کی شاعری کے دو اہم پہلوؤں کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آخر میں حق تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ مظفر وارثی کے حمد و نعت کے نذرانوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
کتابیات
دریائے نور مظفر وارثی
اردو میں نعتیہ شاعری ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق
نعتیہ شاعری کے تنقیدی زاویے ڈاکٹر عزیز احسن