محمد حسن کی ڈراما نگاری: ایک مجموعی جائزہ

ڈاکٹر پرویزعالم
ستمبر 2022

محمد حسن اردو زبان و ادب کا ایک نہایت محترم نام ہے۔ انھوں نے اردو ادب کے عصری منظرنامے پر اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی ہے۔ ان کی ادبی و تخلیقی شخصیت کی مختلف جہتیں ہیں۔ وہ بیک وقت اردو کے ایک معروف دانش ور، مفکر، ترقی پسند نقاد، شاعر، مترجم، افسانہ نگار اور ڈرامانگار ہیں۔ لیکن ان کی بنیادی پہچان ترقی پسند نقاد کی ہے۔ انھوں نے ترقی پسندانہ افکار و نظریات اور تصورات و رجحانات کی روشنی میں اپنا تنقیدی سفر جاری رکھا۔ وہ تاعمر تدریس سے وابستہ رہے۔ انھوں نے ملک کی مختلف دانش گاہوں اور یونی ورسٹیوں میں اپنی خدمات انجام دی ہے۔ ان سے طالب علموں کی کئی نسلیں فیض یاب ہوئی ہیں۔
اپنی تدریسی ذمے داریوں اور تمام تر مصروفیات کے باوجود محمدحسن نے اردو کی مختلف اصناف میں اپنی ایک الگ چھاپ چھوڑی ہے۔ انھوں نے ادبی معیار کا ہمیشہ خیال رکھا۔ ان کی بے شمار کتابیں شائع ہوکر داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ تنقید کے حوالے سے ‘اردو ادب میں رومانوی تحریک’، ‘دہلی میں اردو شاعری کا تہذیبی اور فکری پس منظر’، ‘ہندی ادب کی تاریخ’، ‘معاصر ادب کے پیش رو’، ‘ادبی سماجیات’، ‘مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ’، ‘قدیم اردو ادب کی تنقیدی تاریخ’، ‘اردو ادب کی سماجیاتی تاریخ’، ‘ادبیات شناسی’، ‘شناسا چہرے’، اور ‘ادبی تنقید’ وغیرہ ان کی مشہور و اہم کتابیں ہیں۔
اردو میں ڈراما نگاری کی ایک طویل اور مستحکم روایت ملتی ہے۔ اردو ڈرامے کی عصری روایت کو جن تخلیق کاروں نے ایک معیار و وقار عطا کیا، ان میں محمد حسن کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ہم عصر اردو ڈرامے کی کوئی بھی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ محمد حسن نے اردو ڈرامے کو فکر و فن کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ انھوں نے اردو ڈرامے کی دنیا میں اپنی تخلیقی سرگرمیوں کو زندہ رکھا اور بہت سے اہم ڈرامے تخلیق کیے۔
محمد حسن کے ڈراموں کے مختلف مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ‘پیسہ اور پرچھائیں’، ‘میرے اسٹیج ڈرامے’، ‘کہرے کا چاند’، ‘مور پنکھی اور دوسرے ڈرامے’، ‘تماشا اور تماشائی’، ‘ضحاک’ اور ‘خون کے دھبے’ جیسے مجموعے ان کی تخلیقی انفرادیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ محمد حسن نے ڈرامے کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ انھوں نے ادبی ڈرامے کے علاوہ اسٹیج پر پیش کیے جانے والے ڈرامے بھی تخلیق کیے۔ ریڈیو اور یک بابی ڈرامے کی دنیا میں بھی ان کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انھوں نے اپنی ڈرامائی تخلیقات میں بھی ترقی پسند موضوعات و مسائل کو مرکزیت کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے یہاں سماجی، سیاسی، تہذیبی، تاریخی اور اقتصادی صورت حال کی حقیقی ترجمانی ملتی ہے۔ انھوں نے انسانوں پر ہونے والے ظلم و جبر اور انسانی درد و غم اور بے بسی و لاچاری کو اپنے ڈراموں میں نہایت خوب صورتی و بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ کسی بھی تنگ نظری اور تعصب کے برعکس فکر اور فن دونوں کو اہمیت دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈراموں میں فکر و فن کا امتزاج نظر آتا ہے۔
محمد حسن چوں کہ نظریاتی اعتبار سے مارکسی فلسفہ حیات سے وابستہ تھے، اس لیے ان کے بیش تر ڈراموں میں اسی نظریے کا عکس نظر آتا ہے۔ ان کو مشرق و مغرب کے ڈرامائی ادب سے بھی پوری واقفیت تھی۔ ڈراموں کا شوق اور اداکاری سے دل چسپی ان کو بچپن سے تھی۔ علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے ایک ‘اردو تھیٹر’ قائم کیا تھا۔ اس تھیٹر کے ذریعے اسٹیج ہونے والے کئی ڈراموں میں اداکاری کے ذریعے انھوں نے اپنے فنی جوہر دکھائے۔
محمد حسن نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ بعدازاں افسانہ نگاری سے ان کی دل چسپی کم ہو گئی لیکن اسی دوران انھوں نے ریڈیو فیچر اور ریڈیو ڈرامے لکھ کر آل انڈیا ریڈیو لکھنو کو بھیجے۔ ریڈیو والوں نے ان کے ڈراموں کو نثر کرنا منظور کر لیا اور دونوں کا معاوضہ چالیس روپیہ ملا۔ یہیں سے محمد حسن کی ڈراما نگاری کی ابتدا ہوئی یعنی (1945-46)میں۔ ویسے تو محمد حسن اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے سے پہلے افسانے، ڈرامے اور فیچر لکھ کر کر چکے تھے، لیکن باضابطہ طور پر انہوں نے لکھنے کا آغاز 1950ء میں کیا جب ان کو اخبار ‘پائینر’ کے سب ایڈیٹر کی نوکری ملی۔ وہ پریس کا کام انجام دیتے ہوئے وہاں کے حالات کا جائزہ برابر لیتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے ‘یہ لکھنو ہے’ کے عنوان سے ایک دل چسپ ریڈیو فیچر لکھا جو آل انڈیا لکھنو سے دس بارہ قسطوں میں براڈکاسٹ ہوا۔ اس فیچر کا اہتمام بڑی خوش اسلوبی سے کیا گیا تھا۔ اس فیچر میں حضرت گنج، امین آباد اور چار باغ جیسے علاقوں کو ان کے جیتے جاگتے افراد و ماحول کے ساتھ محمد حسن نے تخلیقی انداز میں پیش کیا۔ اس میں لکھنو کے بازار کے ہنگامے، اخبار والوں کی آوازیں سڑکوں کا شور وغیرہ کو پیش کیا گیا ہے۔
اس ریڈیو فیچر کی مقبولیت کے بعد محمد حسن نے ریڈیو کے لیے یکے بعد دیگر ے کئی ڈرامائی فیچر لکھے جن میں ‘نقش فریادی’ اور ‘اکبر اعظم’ قابل ذکر ہیں۔ اور یہیں سے ریڈیو ڈرامے لکھنے کی ترغیب ملی اور باقاعدہ ریڈیو ڈرامے تخلیق کرنے لگے جو آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئے۔ اس سے اتنی بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ محمد حسن کی ڈراما نگاری کی ابتدا قیام لکھنو کے دوران ریڈیو ڈرامے سے ہوئی۔ 1955ء میں ان کے ریڈیو ڈرامے کا پہلا مجموعہ ‘پیسہ اور پرچھائیں’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں نو ڈرامے شامل ہیں۔
محمد حسن 1954 میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں استاد تھے، اس دوران درس و تدریس کو سر انجام دیتے ہوئے انھوں نے ‘اردو تھیٹر’کے نام سے ایک ڈراما گروپ قائم کیا۔ اسی گروپ کے بینر تلے کئی ڈرامے اسٹیج کیے۔ اس کے علاوہ تراجم اور Adaptations بھی اسٹیج کیے گئے۔ جن میں گوگول کا ‘انسپکٹر جنرل’ قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد 1961 میں محمدحسن کے اسٹیج ڈراموں کا پہلا مجموعہ ‘میرے اسٹیج ڈرامے’ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس میں کل چھ اسٹیج ڈرامے ہیں۔
1969ء میں ان کا مشہور ڈراما ‘کہرے کا چاند’ شائع ہوا۔ یہ ان کا پہلا طویل اسٹیج ڈراما ہے۔ اس ڈرامے کو دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو نے غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر شائع کیا۔ 1975 ء میں ان کا دوسرا طویل اسٹیج ڈراما ‘تماشا اور تماشائی’ شائع ہوا۔ اسی سال ان کے ڈراموں کا مجموعہ ‘مور پنکھی’ شائع ہوا۔ اس میں سات ڈرامے شامل ہیں۔ جن میں ‘شکست’، ‘مور پنکھی’، ‘دارا شکوہ’ اور ‘کچلا ہوا پھول’، ‘مولسیری کے پھول’، ‘سچ کا زہر’ اور ‘خواب کا سوداگر’ یہ سب اسٹیج اور ریڈیو ڈراموں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ محمد حسن نے اردو ڈراموں کے انتخابات بھی ترتیب دیے ہیں۔ جن میں ‘نئے ڈرامے’ (1967) اور ڈراموں کا انتخاب (1998) قابل ذکر ہیں۔ ان کا شاہ کار ڈراما ‘ضحاک’ (1980) میں شائع ہوا۔ اس کے کچھ حصے انہوں نے ایمرجنسی سے پہلے لکھے اور باقی حصے کو ایمرجنسی کے دوران پورا کیا۔ اس کے علاوہ محمد حسن نے ایک منظوم ڈراما ‘عمر خیام’ کے عنوان سے لکھا جو ان کے شعری کلام کا مجموعہ ‘زنجیر نغمہ’ میں شامل ہے۔ یہ مجموعہ 1989ء میں شائع ہوا۔
محمد حسن نے اردو ادب میں جو بھی ڈرامے لکھے، اس میں انہوں نے عصری حسیت اور سماجی و تہذیبی عناصر کی شکست و ریخت کو ہر ممکن صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ محمد حسن سامعین و ناظرین کو داستانویت کی خواب آوردہ خوراک دینے کے بجائے عصری تقاضوں اور حقائق حیات سے آنکھیں چار کرنا سکھایا۔ محبت، انسان دوستی اور انسانیت کے فروغ میں ممد و معاون قدروں کو اپنے ڈراموں میں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے ڈراموں میں بدلتے ہوئے معاشرے اورسماج کے اہم مسائل کو پیش کیا۔
Assistant Professor ( Guest faculty)
Dept. of Urdu
Govt. Girls College, Bari, Dholpur, Rajasthan
Mob: 9971989353

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ