مشغلہ دل لگی کا جاری ہے
مر گئے میرؔ اپنی باری ہے
واقعہ، کوئی سخت ہوتا تھا
اب تو جو وار ہے، سو کاری ہے
لمحہ لمحہ جو کاٹتی ہے ہمیں
زندگی کیا ہے، اک کٹاری ہے
ساری دنیا ہے اپنے مطلب کی
یار میری، نہ یہ تمھاری ہے
سوچ کر نام لے محبت کا
دیکھ، تلوار یہ دو دھاری ہے
زندگی اس بتوں کی بستی میں
کیا کہوں کس طرح گزاری ہے
ان کی رگ رگ میں ہے نفاق نہاں
جن کا انداز، خوش شعاری ہے
زندگی جس کو کہہ رہے ہو رئیسؔ
صرف شغلِ نفس شماری ہے