یہ جان کر بھی کہ خطرہ ہے کس کمینے سے
چلے ہیں کوفے کو ہم بے خطر مدینے سے
قضا جب آئے گی ، دے دیں گے جان ہم اپنی
سجا کے نکلے ہیں کاندھے پہ سر قرینے سے
نہ جانے کون سا طوفان اُٹھنے والا ہے
یہ کیسا شور اُمڈنے لگا ہے سینے سے
کبھی تو کوئی مرا حالِ زار سمجھے گا
بھلی ہے موت ہی، مجبور ہو کے جینے سے
بھنور میں پھینک دیا مجھ کو، کہہ کہ ناکارہ
بُلا رہا ہے مجھے کون پھر سفینے سے
انھی سے پھیلے گی ہر سمت روشنی اک دن
یہ اپنی قوم کے بچے ہیں جو نگینے سے
رفیقیؔ دل کے چمن میں مہک ہے یہ کیسی
یہ کون آیا اُتر کر ہوا کے زینے سے