ترے خیال سے نکلیں تو داستاں ہو جائیں
نصیب ہو جو ترا ساتھ، جاوداں ہو جائیں
ہماری راکھ اڑانے کو آئے گا وہ شخص
سو اس سے پہلے بھلا کیسے ہم دھواں ہو جائیں؟
تمھارے ملنے تلک قادر الکلام رہیں
تمھارے سامنے آئیں تو بے زباں ہو جائیں
ہمارا مسئلہ، دیکھو! ہمارا مسئلہ ہے!
یہ لوگ کس لیے اب اپنے درمیاں ہو جائیں
دلیل ہے ترے ہونے کی یہ ہمارا وجود
ترا نشاں بھی نہ ہو، ہم جو بے نشاں ہو جائیں
یقین ہے تمھیں اس وقت ہوش آئے گا
تمھاری چاہ میں جب یوں ہی رائگاں ہو جائیں
ہمارا ہاتھ ذرا آپ تھام کر رکھیے
کہیں حضور! نہ ہم گردِ کارواں ہو جائیں
ربابؔ جان بھی حاضر ہے اک اشارے پر
وہ ہم کو درد بھی دے دے تو شادماں ہو جائیں