کیا جانیے اس نام میں کیا بھید بھرا تھا
سنتے ہی جسے رات کوئی چونک پڑا تھا
اس شور کو سن سن کے یہ دل کانپ گیا تھا
جیسے کوئی میری ہی طرح چیخ رہا تھا
اس کو بس ادھر ایک ہی دھن تھی اور ادھر میں
بگڑی ہوئی اک بات بنانے میں لگا تھا
حیرانی یہی تھی کہ چمک کیسی ہے دل میں
پھر آج جو اک زخم کو دیکھا تو ہرا تھا
کل گریۂ پیہم نے مری جان بچائی
میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا
وہ سرد سماعت میں مجھے ڈھونڈ رہی تھی
میں شعلۂ اظہار کے باطن میں چھپا تھا