جزا ناقابلِ عفو و معافی مانگ لی ہے
وفا نے قیمتِ وعدہ خلافی مانگ لی ہے
اٹھا کر ہاتھ میں تیشہ چٹان اب کاٹیں چلیے
دعا تو ہاتھ اٹھا کر ہم نے کافی مانگ لی ہے
اسے کیا ہو گئی ہے دوست اور دشمن کی پہچان
کہ اس نے میری رائے اختلافی مانگ لی ہے
تھا تیرا غم ہی کافی جاں کے بدلے، دے نہ دے تو
عنایت تیری میں نے تو اضافی مانگ لی ہے
عروسِ حسنِ معنیٰ کا یہ وقتِ رخصتی ہے
قلم نے میرے اب دادِ قوافی مانگ لی ہے
سزا اے حُبِّ دنیا کتنی دے گی، چھوڑ اس کو
کہ ارشدؔ نے تو اب تجھ سے معافی مانگ لی ہے