کوئی بھی یہاں ہوش سے بیگانہ نہیں ہے
”اس دور میں دیوانہ بھی دیوانہ نہیں ہے”
تم یاد تو آتے ہو مگر آتے نہیں ہو
یہ طور کسی طرح شریفانہ نہیں ہے
ہے دور تلک پھیلا ہوا شورِ خموشی
اس دل سے بڑا کوئی بھی ویرانہ نہیں ہے
گہرائی کا اندازہ نہیں سطح سے ممکن
جذبات کو جو ناپے وہ پیمانہ نہیں ہے
اے شمع دوانے ترے ہیں کتنے پتنگے
ہو جائے جو قربان وہ پروانہ نہیں ہے
اندازِ سخاوت مرا شاہانہ ہے لیکن
اندازِ طلب اُس کا فقیرانہ نہیں ہے
دریافت کیا میں نے کہ ہے کیوں یہ اداسی
لوگوں نے کہا بزم میں فرزاؔنہ نہیں ہے