افق پر آسماں رہنا نہیں تھا
غبارِ کارواں رہنا نہیں تھا
اسے بھی ساتھ لے جانا تھا ہم کو
یہاں نام و نشاں رہنا نہیں تھا
مسلسل بارشوں کے سلسلے تھے
تو پھر وہ نقشِ جاں رہنا نہیں تھا
یہی پستی بلندی نیک و بد سب
کوئی کارِ زیاں رہنا نہیں تھا
خموشی سے خموشی مل رہی تھی
کہ شورِ درمیاں رہنا نہیں تھا
سبھی کے جنت و دوزخ بنے تھے
کسی کو رائگاں رہنا نہیں تھا
یہ بستی خوب صورت خواب سی ہے
مگر مجھ کو یہاں رہنا نہیں تھا