جو ہلکی دھند جبینِ سحر پہ طاری ہے
اندھیری رات کی وحشت پہ ضرب کاری ہے
ضرور نیل کوئی تیرا منتظر ہوگا
زمیں کی پشت پہ تیرا وجود بھاری ہے
ازل سے معرکہ انداز ہیں سپید و سیہ
شرار و گل میں تصادم ازل سے جاری ہے
ہم اس سے ہوش کی صہبا کشید کرتے ہیں
نظر نظر میں جو پھیلی ہوئی خماری ہے
کہیں سفر میں یہ زنجیر پا نہ بن جائے
جو دور تک مری راہوں میں سبز کاری ہے
جہاں میں اس کی ہی آواز معتبر ٹھہری
وہ جس کی جیب میں لفظوں کی ریز گاری ہے
ٹھہر گئی ہے عجب رت سوادِ جاں میں حسنؔ
بدن کی کشت میں ہر سمت زرد کاری ہے