ادب اور صحافت کے فرق کو واضح کرنے کے لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب اقدارِ حیات کی تطہیر، پاکیز گی اور حسن کا نام ہے۔ بر عکس اس کے صحافت ہیجان،اشتعال، جذبات کی برانگیختگی کا ذریعہ ہے۔ ادب لمحات، وقت اور زماں کو اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ صحافت لمحات، وقت اور زماں کے ساتھ چلتی ہے۔
اس پسِ منظر میں عالمی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ صحافت نے صرف عظیم سیاسی رہ نماہی نہیں پیدا کیے بلکہ چر چلؔ، گاندھی جی، مولانا ابو الکلام آزاد، ایڈ منڈ برگ،تھیکرے، مولانا محمد علی جوہرؔ، عابد علی خاں، عبدالمجید انصاری، مولوی باقر دہلوی، مولانا ظفر علی خاںاور حسرت موہانی وغیرہ جیسی عظیم شخصیتیں انھی سنگلاخ و ادیوں سے گذرتے ہو ئے عالمی منظر نامے میں شمار کیے جاتے ہیں۔
اردو صحافت اور ادب کو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا جا ئے تو غلط نہ ہوگا۔ اردو صحافت نے ادب کو فروغ دیا اور ادب نے اردو صحافت کوجلا بخشی۔ بیشتر صحافی اپنے دور کے نامور ادیب اور شاعر بھی رہے۔ ان نامور صحافیوں نے شعر و ادب کے میدان میں بھی اپنے آپ کو منوایا۔ تقسیم وطن کے وقت ادبی دنیا، نیا ادب، ادب لطیف کی بڑی دھوم تھی۔ ڈاکٹر ہمایوں اشرف کے بموجب آزادی کے بعد ادب و صحافت کو نئی زندگی بخشنے والے اخبار و رسائل کے چند نام یہ ہیں۔ رہ نمائے دکن، ہند سماچار، بلٹز، آئینہ، انقلاب، اردو ٹائمز، سالار، نشیمن، آزاد ہند، ملاپ، پرتاپ، صداقت، سیاست، آزاد ہند، اخبار مشرق، ساتھی، ہماری زبان، قومی تنظیم، منصف، صحافت، اعتماد، اردو ادب، نوائے ادب، معیار، تہذیب، صبح نو، شاعر، صنم، آج کل، شاہ راہ، کتاب نما، شب خون، الفاظ،کتاب، روح ادب افکار، سیارہ، اشارہ، سیپ، طلوع افکار، روبی، شمع، بیسویں صدی، خاتون مشرق، گلابی کرن، پاکیزہ آنچل، دوشیزہ، خاتون، آج کی خاتون، ہما، شبستان، فلمی تصویر، چار رنگ، ہزار رنگ، کہکشاں، شگوفہ، فنون، نقوش، روح اردو، مباحثہ، مریخ، سوغاتاور ایوان اردو وغیرہ۔
ممتاز ناقد ،صحافی اور ادیب جناب پروفیسر عبدالمغنی کے مطابق ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے قائم ہونے کے بعد تعلیم و تہذیب کی سطح پر اور علمی حلقوں میں مغربی علوم و فنون کے ساتھ دل چسپی بڑھنے لگی۔ اور ہندوستان کے اہلِ فکر نے اپنے سماج اور افراد کی اصلاح و ترقی کے لیے کتابوں اور رسالوں کی اشاعت کے ادارے بھی قائم کیے۔ تحریکیں بھی چلائیں ان میں سر سید احمد خان کا رسالہ’تہذیب الاخلاق’ پیش پیش تھا جو بیک وقت علمی و ادبی اور مذہبی و معاشرتی مضامین شائع کرتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اخبارات اور جرائد میں اشعار کے گلدستہ کا رواج بڑھنے لگا۔ شعرا کا کلام ان کا تعارف شائع ہونے لگا۔ پھر نظم و نثر کے ملے جلے رسالوں کا فروغ بھی ہوا۔ ان میں’سب رس’،’شاعر’ قابل ذکر ہیں۔ افسانوی اور مزاحیہ ادبیات کا فروغ بھی ساتھ ساتھ ہوا۔ منشی سجاد حسین کا’اودھ پنچ’اور مولانا عبدالحلیم شرر کا’دلگداز’اس رجحان کے نمائندے تھے۔ جناب عبدالمغنی اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں کہ”بیسویں صدی میں آزادی سے قبل کی ادبی صحافت ایک نشاۃثانیہ کے اس ہمہ گیر رجحان کی ترجمان تھی جو 19 ویں صدی کے اواخر سے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں شروع ہو چکا تھا۔ اس رجحان کے مختلف عناصر کے علم بر دار ایک طرف مذہب پسند تو دوسری طرف قوم پرست اور تیسری طرف اشترا کیت پسندتھے، اس پس منظر میں بیسویں صدی کی ادبی صحافت کا آغاز ہوا”۔ آزادی سے قبل کے ادبی رسائل میں طباعت کی جدید ترین سہولتوں کے فقدان کے باوجود پیش کش کی نفاست پر زور دیا جاتا تھا۔ انھیں اپنے رسالے کی اشاعت کی فکر اشتہارات اور سرکاری سر پرستی سے زیادہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خریداروں کے مستقل حلقے ہوتے تھے۔ یہ علم و ادب کی حقیقی قدر شناسی تھی۔ ایسے رسائل اخبارات وجرائد میں’الندوۃ لکھنؤ’جو علامہ شبلی کی سر پرستی میں شائع ہوتا تھا مجلسِ ادارت میں مولانا آزاد اور مولانا سلیمان ندوی جیسی شخصیات شامل تھیں۔’الہلال’ابو الکلام آزاد کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہوا اور اردو دنیا پر چھا گیا۔’معارف اعظم گڑھ’کے مدیر مولانا سید سلیمان ندوی تھے۔’صدق’مولانا عبدالماجد دریا بادی کے رشحات قلم کا آئینہ دار تھا۔ انجمن ترقی اردو کا ترجمان’اردو’ایک لسانی ادبی تحریک کا علم بردار تھا جس کے قائد اور مدیر بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا ترجمان’جامعہ’کی علمی خدمات کا مسلّمہ رہا۔’نیرنگ خیال’کی تاریخ رہی۔ ‘عالمگیر’، ‘ادبی دنیا ‘نیاز فتح پوری کا ‘نگار’ شاہد احمد دہلوی کا ‘ساقی ‘اختر شیرانی کے”خیالستان” اور ‘رومان ‘کو اردو ادب و صحافت کا سنگ میل کہا جا تا ہے۔ مولانا حسرت موہانی کے زیر ادارت’اردوئے معلی’دنیائے ادب کو منور کرتا رہا۔ (‘عبدالمغنی ‘۔ ادبی صحافت۔ اردو صحافت۔ مسائل اور امکانات’)
آزادی کے بعد اگر چہ ادبی صحافت میں وہ دم خم نہ رہا ۔اس کے باوجود جن اخبارات جرائد و رسائل نے اپنے آپ کو زندہ رکھا ان میں ‘آج کل ‘،دہلی جو جوش ملیح آبادی کی ادارت میں شروع ہوا تھا اب فرحت پروین کی ادارت میں جاری ہے۔ رسالہ ‘اردو ‘کی جگہ انجمن ترقی اردو کا رسالہ ‘ہماری زبان’ علی گڑھ سے جناب آل احمد سرور کی ادارت میں چلتا رہا۔ انجمن ترقی اردو کا ہفتہ وار ‘ہماری زبان’، اعظم گڑھ کا ‘معارف’ اب بھی ادب کی خدمت میں مصروف ہے۔ سیماب اکبر آبادی کی یاد گار’شاعر’ممبئی سے افتخار امام صدیقی کی ادارت میں شائع ہو تارہا ہے اور اس نے اپنی عمر کے 85 برس مکمل کر لیے۔’شمع’،’بیسویں صدی’،’خاتون مشرق’،’آئینہ’نے اردو ادب کی کافی خدمات انجام دیے۔
دور حاضر میں تقریباً سبھی روزنامے اور جرائد نے گوشہ ادب سے اپنا رشتہ استوار رکھا ہے۔ ہفتہ وار ادبی ایڈیشن کے اخبارات و جرائد جان ہوتے ہیں جن میں سیاست، منصف، رہ نمائے دکن، اعتماد ‘راشٹریہ سہارا’،’انقلاب’، ‘اردو ٹائمز’، ‘سالار’،’آزاد ہند’،’ آبشار’، ‘نئی دنیا’، ‘گواہ،’ شامل ہیں، زبان و ادب کے معمار سمجھے جاتے ہیں حالاں کہ انھوں نے اپنے کچھ صفحات شعر و ادب کے لیے بھی مختص کیے۔ ‘شگوفہ’ مزاحیہ ادب کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی اشاعت کی نصف صدی کی طرف رواں دواں ہے۔ کئی رسائل ہندوستان میں شعر و ادب کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان میں’سب رس’،’خاتون مشرق’،’گلابی کرن’وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اردو کے فروغ اور ہر عمر کے قاری کی دل چسپی کو برقرار رکھنے میں جا سوسی ادب کا بھی نمایاں رول رہا ہے۔ آزادی سے پہلے جا سوسی یا اساطیری ادب، انگریزی کے تراجم پر مشتمل ہوتے تھے۔ ابن صفی نے اپنی تحیر آمیز تحریروں سے جاسوسی ادب کو اتنا مقبول عام بنادیا تھا کہ ان کے ناولوں کو پڑھے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ ابن صفی اور جا سوسی ادب کی مقبولیت کے باوجود تنگ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ادب میں شامل نہیں کیا گیا تاہم اس عظیم جا سوسی ناول نگار کی وفات کے 32 برس کے بعد ان کی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ ارد و دنیا میں ان کی شخصیت اور خدمات پر بین الاقوامی سمینار وں کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ ابن صفی کے ہمعصر جاسوسی ناول نگاروں میں اکرم الٰہ آبادی، ایچ اقبال قابل ذکر ہیں۔ سلامت علی مہدی اور کچھ گمنام ناول نگار قانون والا کے فرضی نام سے شمع ادارے کی جانب سے شائع ہونے والے ماہنامہ ‘مجرم’ کے لیے لکھا کرتے تھے۔ اب تو جا سوسی ناول نگار تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔ اگر چہ پا کستان میں نئی نسل نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے اور ان کو خاطر خواہ عوامی تائید بھی ملی ان میں ایم اے راحت قابل ذکر ہیں۔ جا سوسی ادب نے جرم و سزا سے اردو قارئین کا رشتہ جوڑا پھر ایسے کئی رسائل و جرائد شائع ہونے لگے جو مکمل جرائم سے متعلق ہوا کرتے ہیں۔ ان میں ‘جرائم کی دنیا ‘اور ‘جرائم ‘قابلِ ذکر ہیں۔
ادب نے صحافت کو فروغ دیا یا صحافت نے ادب کا تحفظ کیا؟ یہ سوال اپنی جگہ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ادب اور صحافت کا رشتہ تب سے ہے جب سے دونوں کا وجود ہوا۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہے ہیں۔ جس طرح سے آپس میں آوازوں سے پیامات کی ترسیل جو کسی قواعد وضوابط سے بے نیاز ہوتی ہے و’بولی’کہلاتی ہے مگر جب یہی تحریر میں آتی ہے تو وہ’زبان’کہلاتی ہے جس میں ادب پیش کیا جاتا ہے۔ مختلف اصناف سخن کے الگ الگ نام دیے گئے ہیں، مگر جب یہ کسی وسیلہ سے عوام الناس تک پہنچائے جاتے ہیں تو وہ ادبی صحافت کہلاتے ہیں۔ ہر دور میں ادب اپنے اپنے اندازوں میں عوام میں مقبول رہا چاہے وہ مذہبی تصانیف ہوں یا ڈرامے کا انداز، شاعری، نثر، یا کچھ اور۔ دورِ قدیم سے ہی کسی نہ کسی طرح سے اسے پیش کیا جاتا رہا۔ جہاں تک اردو ادب اور صحافت کا تعلق ہے، اصنافِ سخن صحافت کا لازمی حصہ رہے۔ شعرائے کرام کا کلام، مضامین، مشاہیر کے خطوط، اخبارات، رسائل اور جرائد شائع کرتے رہے ہیں۔ ادب نے صحافت کو وقار عطا کیا اور صحافت نے ادب کو شہرتِ بام تک پہنچایا۔ یوں تو کلا سیکی ادب اور ترقی پسند ادب کا جھگڑا چلتا رہا۔ مگر ہر دورنے اردو کی لاج رکھی اور صحافت کے اقدار کے استحکام میں اہم رول ادا کیا۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ آغاز سے 2000ء تک میں لکھا ہے کہ: “لفظ سے لفظ پیوست ہوا تو مالا کے مانند فقرہ ظہور پذیر ہوا اور گلدستہ جیسی تخلیق صدا بیانی کی صورت میں لفظ نے حقیقت بیانی سے کوائف مہیا کیے تو پیچیدگی سے تخلیق کا ترفع پایا”۔ لفظ کے دونوں رخ قابلِ قدر ہیں۔ تاریخ ادب کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے۔”کسی زبان کے جغرافیائی حدود سے مخصوص انسانی، روحانی، تہذیبی، تمدنی، سماجی، سیاسی اور اقتصادی عوامل کے محرکات کے عمل اور ردّ عمل سے تشکیل پانے والے ذہنی تناظر میں وقوع پذیر ہونے والی تخلیقات ادب کہلانے لگی، جن کا معیار بندی، لسانی مضمرات اور تخلیقی شخصیات کا مطالعہ،تاریخ نگاری اور ان کا زیرک مطالعہ تجزیہ و تحلیل اور تشریح”سے موسوم ہوگیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن اخبارات و رسائل نے ادب کو اپنا ایک حصہ بنایا ان کی عمر طویل رہی اور قارئین کے ہر طبقہ میں ان کی پذیرائی ہوتی رہی۔ جن اخبارات اور رسائل میں صحافتی زبان میں ادب کی آمیزش کی گئی، وہ ہاتھوں ہاتھ لیے گئے۔ مولانا آزاد کا ‘الہلال’، ‘ البلاغ’ ہو یا مولانا عبدالماجد دریابادی کا ‘صدق جدید’، سر سید کا’تہذیب الاخلاق’ ہو یا مولوی عبدالحق کا رسالہ ‘اردو’ ان سب نے ادبی چاشنی کے ساتھ صحافت کے اعلیٰ اصول و اقدار کی مثال قائم کی۔ ادبی تحریکات کے فروغ میں اخبارات نے بھی اہم رول ادا کیا۔ چناں چہ ترقی پسند تحریک کے اپنے ترجمان اخبارات و جرائد رہے اور اس مکتبۂ فکر کے شعرا اور ادیبوں کی نگار شات قلم کی اشاعت کے لیے کچھ جرائد و اخبارات مخصوص رہے۔ اردو دنیا نے ادب کے تحفظ اور فروغ کے لیے مخصوص اخبارات اور جرائد شائع کیے۔
اردو صحافت اور ادب آج کے انفار میشن ٹکنالوجی کے دور میں ایک نئی زندگی حاصل کر رہے ہیں کیوں کہ جہاں انٹرنیٹ نے اردو صحافت اور ادب کو سرحدوں سے بے نیاز کر دیا وہیں شعر و ادب کو دنیا بھر میں عام کر دیا۔ اب تو شعرا اور ادیبوں کا کلام انٹر نیٹ، ویب سائٹ و مختلف بلاگس پر دستیاب ہے۔ کئی ایسے اردو پورٹلس آپ کو مل جائیں گے جس میں آپ اپنے محبوب شعرا کا کلام کمپیوٹر اسکرین یا موبائل اسکرین پر پڑھ سکتے ہیں،اس پر رائے دے سکتے ہیں، یوٹیوپ پر انھیں ہی کلام پڑھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں یا پھر ان کے کلام کو کسی گلوکار یا غزل سنگر کی آواز میں سن سکتے ہیں۔ اب تو نیٹ مشاعرے ہونے لگے ہیں۔ طرحی اور غیر طرحی مشاعرے بھی عام ہونے لگے ہیں۔’بزمِ فروغ اردو ‘یا ‘صدف انٹر نیشنل ‘ قطر اس کے لیے مشہور ہو چکے ہیں۔ اس مشاعرے میں جس کا اہتمام دوحہ میں کیا جا تا ہے، شعرائے کرام دنیا کے کسی بھی خطہ سے اپنا کلام انٹر نیٹ کے ذریعے بھیج دیتے ہیں جسے مشاعرے میں سنایا جا تاہے۔
کئی ہستیاں یقینا ًانٹر نیٹ اور سو شل میڈیا کے استعمال سے اردو کے کلا سیکی ادب کو محفوط کر کے اسے نئی نسلوں تک پہنچانے کا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ یقینا ًآنے والی نسلیں ان کی احسان مند رہیں گی۔ اسی طرح اردو ادب اور صحافت انٹر نیٹ اور سو شیل میڈ یا کی بدولت عام ہو چکا ہے جنھیں دل چسپی نہیں تھی وہ بھی دل چسپی لینے کے لیے مجبور ہیں۔ اردو لغات سے لے کر مختلف زبانوں میں ترجمے تک کی سہولت نے اردو ادب اور صحافت کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔ اخبارات کے آن لائن ایڈیشنس اور ای۔میل ایڈیشن نے اخبارات کی زمرہ بندی اور درجہ بندی کے فرق کو ختم کر دیا۔ گھر کے ایک کمرا سے بھی ایک مکمل اخبار انٹر نیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں پہنچایا جا سکتا ہے اور اسی طرح اطلاعات، تصاویر، پیغامات بھی وصول کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ اردو صحافت میں کس نے آن لائن ایڈیشن کی شروعات کی۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ آج سبھی اخبارات و جرائد کے آن لائن ایڈیشن موجود ہیں۔ جن میں سے چند ایک کے نام لیے جا سکتے ہیں۔آن لائن ایڈیشن کی بدولت اطلاعات کا تبادلہ اخبارات کے درمیان ہونے لگا ہے۔ یہ ایک صحت مند انہ علامت ہے۔سمعی و بصری میڈیا کے چند ہی چینل ایسے ہیں جن کے بارے میں یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ یہ صحافتی ذمہ داریوں کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھی موجودہ صورت حال میں صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہنا بہت حد تک مناسب ہوگا ورنہ بیشتر چینل ایسے ہیں جو جمہوریت اور صحافت دونوں کے قتل عام میں رات دن مصروف رہتے ہیں اوریہ صحافت جیسے باوقار پیشہ کو جو کبھی مشن سمجھا جاتا تھا،تجارتی اداروں میں منتقل کرنے کی اپنی معتبر جدوجہد میں شب وروز مصروف ہیں۔ ان سے صحافت کو شرمندگی بھی اٹھانی پڑتی ہے اور جمہوریت بھی خجل اور کم زور ہونے لگتی ہے۔
مآخذ
(۱) اردو صحافت کا سفر– گربچن چندن، صفحات 169-171
(۲) Contribution of Non-Muslims in promotion of Urdu wikipedia.
(۳) Birth of Urdu Journalism in the Indian subcontinent.
(۴) اردو شاعری اور حب الوطنی –ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد ،ص 175
(۵) روزنامہ اعتماد، 3؍نومبر 2013
ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا
رابطہ: 9955361269