کتاب کا نام: شہر ذات
ناول نگار: شاہد اختر موبائل: 9450143117
صفحات: ۲۰۲ قیمت: ۳۰۰
سن تصنیف: ۲۰۲۲
مبصر: معین الدین عثمانی
ناشر: عرشیہ پبلی کیشنز(نئی دہلی)
‘شہر ذات’ معروف فکشن نگار جناب شاہد اختر کا ایک ایسا ناول ہے جو حال کے لبادے میں ماضی اور مستقبل کی داستان سناتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو یہ بات عجیب سی لگے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ شاہد اختر جب بھی کوئی کہانی بیان کرتے ہیں، ان کے یہاں حال کے ساتھ ماضی کی بساط بھی جگہ جگہ بچھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ناول ‘شہر ذات’ اس کی عمدہ مثال ہے۔
جب بھی کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تو مصنف حال کے تناظر میں قاری سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن حال کے بیان کو بین السطور کے توسط سے اگر ماضی سے منسلک کر دیا جائے تو قلم کار کے ساتھ قاری کے وزن میں بھی وسعت در آتی ہے۔ اور اگر مستقبل کا آئینہ بھی دکھا دیا جائے تو پھر یہ بات سونے پر سہاگہ کہلانے کے مترادف ہوجاتی ہے۔
میری دانست میں اسے بیانیہ کی خوبی سے تعبیر کیا جائے گا۔
موجودہ صدی فکشن کی صدی سے موسوم ہے مگر غور کیا جائے تو منصۂ شہود پر آنے والے ناولوں کی بھیڑ میں محض گنتی کے ناول ہی ایسے ہیں جو قاری سے اپنا خراج وصول کر پا رہے ہیں۔
‘شہر ذات’ ویسے آغاز میں خرم کی جدوجہد بھری حیات کے نشیب و فراز کی روداد لگتا ہے۔ مگر گزرے واقعات کی پیش کش جب ماضی کے دریچے کھولتے ہوئے آگے بڑھتی ہے تو رفتہ رفتہ ‘شہر ذات’ کے وسیع جہان سے قاری دوچار ہوتا ہے۔ جہاں ماں باپ کے ساتھ اولاد کے رویے، بھائی بہن کے درمیان کے روابط، دوست احباب کے سلوک، آپسی محبت و نفرت کے رنگ، معاشرے کی مطلب پرستی نیز منافقت اور بھی بہت کچھ جن سے زندگی کا واسطہ ہو سکتا۔ ایسے کئی جذبات ‘شہر ذات’ کی جولان گاہ میں روپ بدل کر قاری کے حضور آتے ہیں۔ جن سے قاری کا آسانی سے گزر جانا ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور ہو جاتا ہے۔ وہ کبھی رک کر تو کبھی لمحہ بھر سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ تحریر کے ذریعے اس طرح کی بے چینی کا پیدا ہونا عمدہ تخلیق کی علامت ہے۔ صفحہ ٢٤کی مثال ملاحظہ فرمائیں:
“مدرسے کے ابتدائی دنوں میں مولوی صاحب نے یاد کرایا تھا کہ خالق کائنات کے ہر ذی روح سے ذاتی مراسم و معاملات ہیں۔ یہ عقدہ کسی پر نہیں کھلتا۔ خرم کو بھی علم تھا کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کیا کچھ ہے۔ اللہ اس کے بھی تمام خیر و شر سے واقف ہے۔ مگر مجموعی طور پر وہ صورت حال بہت تشویش ناک محسوس نہیں کرتا۔”
اس کے ساتھ ہی ناول کی دوسری خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں جابجا ایسی اصطلاحات اور لفظوں کا استعمال ہیں جو دیگر زبانوں کی دخل اندازی یا کوئی اور وجہ سے متروک ہوگئے، ناول کے صفحات پر بکھرے نظر آتے اور ورثے کی پاس داری کے ساتھ بیانیے کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو پان دریبہ، گھڑونچی، دھڑام، چوکی وغیرہ۔ اسی طرح کچھ جملے تو ایسے ہیں جن پر داد نہ دینا حق تلفی کے مترادف ہوگا۔ مثلاً جن کے لیے آخرت کے کوئی معنی ہیں وہ قبر ستان کی ہیبت سے خوف کھاتے ہیں۔ دوسروں کی تدفین میں آنا اور اس بہانے اپنی موت کے بارے میں سوچنا… یہ متضاد باتیں ہیں۔
“کئی کتبوں پر نام کے ساتھ مرحوم بھی لکھا تھا۔ یہ اس نے پہلے بھی کئی بار نوٹس کیا تھا اور ہر بار اسے کتبے پر مرحوم اضافی بلکہ مضحکہ خیز لگتا ہے۔”
“موت واقعی زندگی کا وقفہ ہے… یا…؟ اپنےآپ سے یہ سوال کرکے وہ کچھ دیر تک جانے کیا سوچتا رہا۔ زندگی کا مقصد خالقِ کائنات کے احکامات کی تکمیل ہے یا کچھ…؟ جس کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ صرف خوش فہمی یا مغالطہ… اس سے زیادہ موت کے بارے میں جاننے کے لیے مرنا ضروری ہے شاید۔”
“چھپا لینا، بتا دینے سے زیادہ پر اسرار اور معنی خیز کیوں ہے؟ وغیرہ۔”
عام طور پر ناول کسی ایک واقعے یا اس سے متعلق ضمنی واقعات کے گرد گردش کرتا ہے۔ مگر یہاں معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ کہانی کی شروعات خرم کی داستان حیات کی ظلم و زیادتی سے ہوتی ضرور ہے مگر آگے چل کر اس میں دیگر کرداروں کے واقعات کے ساتھ ماب لنچنگ اور وبا کے ذریعے فوت ہونے والوں کی بے حرمتی کی تفصیلات سے بھی قارئین کا سابقہ پڑتاہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ تمام تفصیلات کو اس ہنر مندی سے جوڑا گیا ہے کہ وہ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک ہی قصے کا جز نظر آنے لگتے ہیں۔
شاہد اختر زبان کا مناسب اور برمحل استعمال کرتے ہیں۔ انھیں اس پر ملکہ ہونے سے یہ خوبی ان کی تحریر میں در آئی ہے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ شاہد اختر کی سوچ کرداروں کے مکالموں سے عیاں ہوجاتی ہے مگر اس سے یہ کبھی نہیں لگتا کہ مصنف کردار کی آڑ میں چھپ کر اپنا بیان دے رہا ہے۔ بلکہ بعض جگہوں پر مشکل ہو جاتا ہے کہ کردار کی ذہانت کی تعریف کی جائے یا مصنف کی۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ فلسفے کی یہ گفتگو مصنف کی ذہنی اپج ہی کی دین ہوتی ہے۔
بعض مرتبہ یوں ہوتا ہے کہ کوئی تخلیق زبان و بیان کی بنا پر تو کوئی اپنے متن کے بوتے پر پڑھنے والوں کے حافظے کی میراث کا شرف حاصل کرتی ہے۔ یہاں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ظاہری دیدہ زیبی نیز ٢٠٢صفحات پر مشتمل ‘شہر ذات’ اپنے متن کے اعتبار سے موجودہ عہد کا قصہ ہے۔ خوب صورت خوب سیرت زبان و بیان کے پیکر میں اس طرح سج دھج کر صفحۂ قرطاس پر بکھرا ہے کہ محض جملوں کی ساخت سے ہی نہیں بلکہ لفظوں کے دروبست سے بھی ناول کی پختگی کا سامان فراہم کرتا ہے۔ اپنی بات کی تصدیق کے لیے محمود ہاشمی کا قول ملاحظہ فرمائیں۔ وہ فرماتے ہیں:
“شاہد اختر کا فکشن زندگی کے ہمہ گیر محسوسات کو گرفت میں لینے اور تجزیاتی یا مفہومی تاثر قائم کیے بغیر ایک ناظر کی نگاہ سے دیکھنے کا عمل ہے۔”
ادب کے وہ سنجیدہ قارئین جو زندگی کی پیچیدگی دیکھنے کے خواہش مند ہیں انھیں شاہد اختر کی آنکھوں پر چڑھی دبیز عینک کے شیشوں سے اسے دیکھنا ہوگا۔ جس کی ہلکی سی جھلک ‘شہر ذات’ کی صورت ادب دنیا میں موجود زندہ ہی نہیں تابندہ بھی ہے۔
264,Shahu Nagar
Jalgaon, Maharashtra