اردو ادب میں ‘سیاہ حاشیے’ کا مقصد وہی ہے جو فارسی ادب میں ‘گلستانِ سعدی’ کا ہے۔ سعدی نے اخلاقی اقدار سے انسانی وجود کی تزئین کاری کے لیے حکایات و اشعار کا سہارا لے کر ناصحانہ انداز اور مربیانہ اسلوب کا انتخاب کیا اور منٹو نے اِسی کام کے لیے افسانوی ہیئت اور طنزیہ اسلوب کو ذریعہ بنایا۔ ایک جگہ مثالی نمونوں کے خوب صورت نتائج کی پیش کش سے ایسے اثرات مرتب کرنے کی کوشش کی گئی جو انسانیت کی فلاح و بقا کے لیے لازمی ہیں اور دوسری جگہ انسانوں کے اُن افعالِ قبیحہ کو نشان زد کیا گیا، جن کا ارتکاب انسانیت کی نو حہ خوانی کے مترادف ہے۔ اس کے لیے منٹو نے صدیوں سے مذہب اور سماج کے تربیت یافتہ انسان کو فرقہ وارانہ فساد کے آئینہ خانے میں لاکھڑا کیا تاکہ اُسے یہ احساس ہوسکے کہ وہ اندر ہی اندر کیسے وحشی جانور میں تبدیل ہوچکا ہے اور تہذیب و شرافت کے فریب میں مبتلا انسان خوش پوشا کی کے باوجود کس قدر ننگاہے۔ منٹونے فساد کے موضوعی تناظر میں انسانی تاریخ کے ایسے وحشت ناک دور کی تصویر کشی کی ہے جب عقل و دانائی غلاظتوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہے اور انسان اس کے تعفن کو چھپانے کے لیے کبھی اس پر مذہب کی خوشبو چھڑکتا ہے تو کبھی اسلاف کی دستار و قبا کو غلاف بنا کر اسے ملفوف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاں انسان غلط کرتے ہوئے صحیح کرنے کی خوش گمانی میں مبتلا ہے، گناہ میں ثواب کے پہلو ڈھونڈتاہے، برائی کی حمایت میں اچھائی کی کتابوں سے سند پیش کرتا ہے، مطلب کے لیے مذہب کا استعمال کرتا ہے اور جھوٹ پر سچ کی قلعی چڑھا کر حسنِ قبولیت عطا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
‘سیا ہ حاشیے’ کی ۳۲ مختصر اور مختصر ترین تخلیقات کو محض فسادات کے موضوع پر مار کاٹ اور لوٹ کھسوٹ کے مناظر کی تحریری تصویریں تصور کرنے کی غلط فہمی نے شاید انھیں اُس قبولیت سے محروم رکھا جس کی یہ حق دار تھیں۔ فساد کا موضوع تو صرف مکھوٹا ہے۔ اس مکھوٹے کے پیچھے انسان اور انسانی نفسیات سے متعلق بے شمار ایسے موضوعات ‘سیاہ حاشیے’ کا حصہ ہیں، جن پر غور کریں تو فساد کا موضوع حاشیے پر چلا جاتا ہے۔ یہاں فساد کی وہی حیثیت ہے جو غزل میں ردیف کی ہوتی ہے کہ ہر شعر کی تان ردیف پر ٹوٹتی ضرور ہے لیکن ہر شعر جدا گانہ موضوع کا حامل ہوتا ہے۔
منٹو بڑا فن کار تھا اور بڑا فن کار لفظوں کو ڈھونے کا قائل نہیں بلکہ برتنے کا قائل ہوتا ہے۔ آخر اس نے ان تحریروں کو ‘سیاہ حاشیے’ سے کیوں موسوم کیا؟ یہ حاشیے ہیں تو اصل متن کیا ہے؟ کیوں کہ بغیر اصل متن کے حاشیے کا وجود ممکن نہیں۔ صدر نشیں نہ ہو تو حاشیہ نشیں کا اطلاق کیسے ہوسکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ حاشیے سیاہ ہیں تو متن یقیناً روشن ہوگا۔ اُسی روشن متن سے متعارف کرانا منٹو کا اصل مقصد ہے۔ وہ متن انسان ہے، انسانیت سے آراستہ ایسا انسان جس کی دانائی معاشرے کے لیے نافع ہو۔
حاشیہ نگاری کے مقصد پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اصل متن کے اسرار و رموز کی تسہیل، تعبیر، تشریح، تفہیم اور کبھی کبھی تذہیب کی ضرورت اس امر کی زائیدہ ہے۔ گویا اجمال کی تفصیل وہ بنیادی عنصر ہے جو حاشیہ نگاری کو معرضِ وجود میں لاتا ہے۔ اب منٹو کی فن کارانہ عظمت کو سلام کیجیے کہ وہ انسان اور انسانیت کی ایسی قدر یا خصوصیت کو موضوع بناتا ہے، جس کی حیثیت آفاقی ہے، عالمی ہے۔ پھر اس خصوصیت کی نمائندگی کرنے والے لفظ یا الفاظ کو عنوان بنا کر انھیں اجمال کا نمونہ بناتا ہے اور یہی وہ اجما ل ہیں جن کے رموز کھولنے کے لیے منٹو کو حاشیے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چوں کہ یہ عنوان انسانی قدروں کے نمائندہ ہیں لہٰذا ان کی حیثیت روشن متن کی ہے اور آج کے انسان نے اُن پاکیزہ اور آفاقی قدروں کو اپنی خود غرضی اور مفاد پرستی کے سانچے میں ڈھال کر اُن کی ایسی شبیہ بگاڑی ہے کہ تسہیل و تفہیم کی صورت میں سیاہی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اُن تحریروں کو صرف حاشیے نہیں بلکہ ‘سیاہ حاشیے’ سے موسوم کرنا فن کار کی مجبوری بن جاتی ہے۔ مجموعے کی پہلی تحریر کا عنوان ہے ‘ساعتِ شیریں’ اس ترکیب کا حاشیہ ملا حظہ کریں:
”اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مہاتما گاندھی کی موت پر اظہارِ مسرت کے لیے، امرتسر، گوالیر اور بمبئی میں کئی جگہ لوگوں میں شیرینی بانٹی گئی۔”
ایک جملے کے اس افسانچے میں منٹو نے بڑی فن کاری سے دیگر تخلیقات کے لیے نہ صرف زمین ہم وار کرلی ہے بلکہ جواز بھی فراہم کر لیا ہے۔ یہ جملہ وہ بنیادی پتھر ہے جس پر ‘سیا ہ حاشیے’ کی پوری عمارت تعمیر ہوئی ہے۔ یہ کسی فساد کے نتیجے میں رونما ہونے والا منظر نہیں، ایک خاص ذہنیت کی شادکامی کا پیش خیمہ ہے۔ مہاتما گاندھی کی موت پر اظہار مسرت اصلاً ایک ایسے دور کی دستک ہے جو اپنی پیشانی پر امن و آشتی نہیں، قتل و غارت گری کے عنوان کا خواہاں ہے۔ ‘ساعت شیریں’ کے روشن متن کا تقاضا تو یہ تھا کہ موت کسی تشدد پسند کی ہوتی اور خوگرانِ امن و آشتی مٹھائیاں تقسیم کرتے لیکن معاملہ برعکس ہے۔ اس لیے ‘ساعتِ شیریں’ کا یہ انشراح روشن نہیں، سیاہ حاشیے سے معبّر ہوا ہے۔
اس مجموعے میں ‘جائز استعمال’، ‘مناسب کاروائی’، ‘اصلاح’، ‘دعوتِ عمل’، ‘کسرِ نفسی’، ‘استقلال’، ‘سوری’، ‘رعایت پسندی’، ‘صفائی پسندی’، ‘صدقے اس کے’ اور ‘اشتراکیت’ جیسے عناوین کے تحت قلم بند ہونے والے حاشیوں کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ ان عنوانات سے یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ یہ گھناؤنے انسانی اعمال کے سرنامے ہیں اور موجودہ تناظر میں ان کے معانی مثبت نہیں منفی ہوچکے ہیں۔ مثال کے طورپر ‘کسرِ نفسی’ اور ‘صفائی پسندی’ عنوان کے تحت پیش کیے گئے مناظر ملاحظہ فرمائیں:
‘کسرِ نفسی’
چلتی گاڑی روک لی گئی۔ جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکال کر تلواروں اور گولیوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ اِس سے فارغ ہو کر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے، دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔ گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کے منتظم نے مسافروں کو مخاطب کر کے کہا: ”بھائیو اور بہنو! ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جس طرح چاہتے تھے اُس طرح آپ کی خدمت نہ کر سکے۔
‘صفائی پسندی’
گاڑی رکی ہوئی تھی۔
تین بندوقچی ایک ڈِبے کے پاس آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافر سے پوچھا: ”کیوں جناب! کوئی مرغا ہے؟”
ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ باقیوں نے جواب دیا: ”جی نہیں”
تھوڑی دیر کے بعد چار نیزہ بردار آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافروں سے پوچھا: ”کیوں جناب! کوئی مرغا ورغا ہے؟”
اس مسافرنے جو پہلے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا، جواب دیا: ”جی معلوم نہیں___آپ اندر سنڈاس میں دیکھ لیجیے۔”
نیزہ بردار اندر داخل ہوئے۔ سنڈاس توڑا گیا تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا۔
ایک نیزہ بردار نے کہا: ”کر دو حلال۔”
دوسرے نے کہا: ”نہیں یہاں نہیں۔ ڈِبا خراب ہوجائے گا۔ باہر لے چلو۔”
ظاہر ہے ان تحریروں میں مذہبی تعلیمات کی خوشبو بھی ہے، معاشرتی اوصاف کی روشنی بھی اور انسانی خصائص کی جھلکیاں بھی لیکن یہ تمام مثبت قدریں اس لیے آلودہ ہوگئی ہیں کہ انسانی خواہشات، اخلاقی تعلیمات کی تابع نہیں رہیں بلکہ انسانوں نے ان تعلیمات کو اپنی ضرورت کے مطابق توڑ مروڑ کر استعمال کرنے میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ ان مثالوں سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منٹو کا مقصد محض یہ نہیں ہے کہ فساد کی کریہہ صورتیں واضح ہوجائیں۔ فساد سے بس اسکرین کا کام لیا گیا ہے جہاں کسی اور ہی منظر کو ابھارنا مقصود ہے۔ فن کار کا کرب یہ نہیں کہ فساد کے بر پا ہونے سے جانی اور مالی نقصانات ہوئے یا ہو رہے ہیں۔ حقیقی کرب یہ ہے کہ انسان اعلیٰ قدروں کا حامل ہوتے ہوئے بھی اس کا ذہن زہر آلود ہوگیا ہے۔ فساد تو وقتی برائی ہے جسے چند دنوں میں ختم ہو جانا ہے لیکن وہ زہرنا کی جس کی جڑیں انسانی سرشت میں پیوست ہوگئی ہیں، اسے ختم کرنا آسان نہیں اور ایسی صورت میں قطعاً آسان نہیں جب زہر کو زہر نہیں امرت سمجھ کر استعمال کیا جائے۔
کوئی جرائم پیشہ جرم کرے تو نہ حیرت کی بات ہے اور نہ ہی دائم تشویش کی کیوں کہ معاشرہ پُرامید رہتا ہے کہ ابھی اچھے لوگ باقی ہیں لیکن ایسے لوگ جو دعویٰ تو معمارِ قوم کا کرتے ہیں مگر شیوہ تخریب ہے، ظاہر تو صوفیوں جیسا ہے لیکن باطن کوفیوں جیسا تو باطل کو حق قرار دینے کی روش عام ہونے لگتی ہے۔ ان مثالوں میں معاشرے کے ایسے افراد کی پہچان منٹو نے کرائی ہے جو یہ جانتے ہوئے بھی کہ تواضع کیا ہے، کسرِ نفسی کیا ہے، مہان نوازی کیا ہے اور صفائی کیا ہے؟ غیر انسانی فعل میں ملوث ہیں۔ ایسے حالات میں انسانیت اور امن و سکون سے محرومی معاشرے کا مقدر ہوجانا یقینی ہے۔ حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں جب ایک چڑیا نے مقدمہ دائر کیا کہ میرے شوہر کا فلاں شکاری نے شکار کر لیا ہے تو حضرت سلیمان نے جواب دیا کہ شکاری کا پیشہ ہی شکار کرنا ہے، اس میں نالش کی کیا بات ہے؟ چڑیانے عرض کیا کہ مجھے شکایت اِس کی نہیں کہ کیوں شکار کیا، شکایت یہ ہے کہ شکاری نے عالم کے بھیس میں شکار کیا ہے۔ اگر وہ شکاری کے بھیس میں ہوتا تو ہم بھی بچنے کی تدبیر کرتے۔ شکاری کو سزا ہوئی۔ ‘سیاہ حاشیے’ کی تحریریں انسانی معاشرے کے اسی کرب پر مبنی ہیں۔ ایسا کرب جو یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ یہ دل دوز خونی مناظر فساد کے نتیجے میں وجود پذیر ہوئے ہیں یا معاشرے کی تباہی و بربادی کے لیے معاشرے کے افراد کی اجتماعی منصوبہ بندی کے نتیجے میں فساد برپا ہوا ہے۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ انسان جیسے جیسے عقل و شعور میں پختگی حاصل کرتا گیا، عیاری اور مکر و فریب اس کی شخصیت کا حصہ بنتے چلے گئے۔ ذاتی مفاد کے حصول کے لیے اپنے مجرمانہ فعل کو اجتماعی ردِ عمل کا روپ دینا اسی عیاری کا نتیجہ ہے۔ منٹو کا یہ کرب ‘دعوتِ عمل’ کے عنوان سے تین جملوں پر مشتمل افسانچے میں اور بھی واضح ہوگیا ہے:
”آگ لگی تو سار محلہ جل گیا ——صرف ایک دکان بچ گئی
جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
“یہاں عمارت سازی کاجملہ سامان ملتا ہے۔”
ان جملوں کے بطن میں کئی ایسے سوال پل رہے ہیں جن کا تعلق فساد جیسے اجتماعی عمل سے نہیں، ذاتی مفاد اور خود غرضی سے ہے۔ مثلاً سارا محلہ جل گیا، یہ دکان کیسے بچی رہی؟ جلے ہوئے مکانوں کا عمارت سازی کی دکان سے کیا تعلق ہے؟ محلہ جل گیا لیکن انسان نہیں جلے کیوں؟ ظاہر ہے ان سوالوں کے جواب کی تلاش ہمیں انسانی عقل کے پسِ پردہ عیاری کی اُس وسیع دنیا سے متعارف کراتی ہے، جہاں صرف ایسے تاجرانہ ذہن کے لوگ بستے ہیں جنھیں بس منافع چاہیے۔ چاہے انسانیت کا کتنا ہی بڑ انقصان کیوں نہ ہو جائے۔ یہاں منٹو نے مرکز میں فساد کو نہیں رکھا ہے بلکہ اس تاجرانہ ذہنیت کو رکھا ہے جو اجتماعیت کی فلاح پر انفرادیت کے منافع کو فوقیت دیتی ہے، جو اپنے ایک بیٹے کی ترقی کے لیے ملت کے ہزاروں جوانوں کو تباہ کر دینے میں دریغ نہیں کرتی، جو اپنی پھول جیسی زندگی کے لیے آس پاس کی دنیا کو خار دار جھاڑیوں میں تبدیل کر دینے میں عار محسوس نہیں کرتی۔ جن کے لیے ارادے کی تکمیل اہم ہے ادارے کا فروغ نہیں۔ منٹو جس ذہنیت کو محلے اور دکان کے تناظر میں پیش کرتے ہیں آج پوری دنیا پر حاوی ہوچکی ہے۔ وہاں محلے کے جلنے کی سازش اس لیے کی گئی تھی کہ عمارت سازی کے سامان بکیں گے۔ آج ملکوں کے درمیان جنگیں اس لیے کرائی جاتی ہیں کہ اسلحہ ساز ملک کے اسلحے فروخت ہوسکیں۔
منٹو نے اس مجموعے کا آغاز ‘ساعتِ شیریں’ کے عنوان سے کیا تھا جہاں گاندھی جی کی موت پر ایک خاص ذہنیت کے حامل افراد کو مسرت کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ درمیان کی تحریروں میں اسی خاص ذہنیت کے لوگوں نے حصولِ دنیا کے لیے انسانیت کو شرم سار کر دینے والے ہتھکنڈے اپنائے لیکن انھیں حاصل کیا ہوا؟ اس کا خلاصہ مجموعے کی آخری دو تحریروں ‘قسمت’ اور ‘آنکھوں پر چربی’ میں بہ طورِ ماحصل پیش کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو افسانچہ ‘قسمت’
”کچھ نہیں دوست —اتنی محنت کرنے پر صرف
ایک بکس ہاتھ لگا، پر اس میں بھی سالا سوّر کا
گوشت نکلا۔”
افسانچہ ‘آنکھوں پر چربی’ کے جملے ملا حظہ ہوں:
”ہماری قوم کے لوگ بھی کیسے ہیں —پچاس سور اتنی مشکلوں کے بعد تلاش کرکے اس مسجد میں کاٹے ہیں۔ وہاں مندروں میں دھڑا دھڑ گائے کا گوشت بک رہا ہے۔ لیکن یہاں سور کا مانس خریدنے کے لیے کوئی آتا ہی نہیں۔”
ان تحریروں میں انھی دو فرقوں کے افراد کردار ہیں جن کے درمیا ن پورے مجموعے میں تصادم جاری رہا لیکن کہیں ان فرقوں کا نام نہیں آیا۔ یہاں بھی منٹو نے نام ظاہر کیے بغیر اپنی باتیں کہی ہیں اور یہ دکھایا ہے کہ جس دنیا کے حصول کے لیے ساری انسانی قدریں پامال کی گئیں، اس کا حاصل سور کے گوشت سے زیادہ کچھ نہیں اور وہی لوگ جو ایک امن پسند کی موت پر شیرینی تقسیم کرکے مسرت کا اظہار کر رہے تھے، تشدد کے مراحل سے گزر کر آج تا سف کا اظہار کر رہے ہیں۔
Asstt. Professor
Academy of Professional Development of
Urdu medium Teachers
Jamia Millia Islamia
New Delhi-110025
Mob: 09990386833