راشدالخىرى نے اردو ناول نگارى مىں نماىاں کردار اداکىا اور اپنے ناولوں کے ذرىعے عورتوں کى خانگى اور سماجى زندگى کو حقىقى پس منظرمىں پىش کرکے سماج کے افراد کو ان کے حالات سے آگاہ کىا۔ انھوں نے اپنے ناولوں مىں اىک مثالى عورت کا کردارپىش کىا ہے اورمسلم خواتىن کو اس معىار تک پہنچنے کى ترغىب دى ہے۔
راشدالخىرى کے ناولوں کى تعداد تىس اکتىس کے قرىب ہے۔ ان کے کچھ مشہور ناولوں مىں ‘حىات الصالحات’، ‘منازل السائرہ’، ‘جوہر قدامت’، ‘صبح زندگى’، ‘شام زندگى’، ‘شب زندگى’، ‘نوحہ زندگى’، ‘طوفان حىات ‘، ‘سراب مغرب’، ‘ماہ عجم’، ‘عروس کربلا’، ‘ىاسمىن شام’ اور ‘نوبت پنج روزہ ىعنى وداع ظفر’وغىرہ قابل ذکر ہىں۔ راشد الخىرى کے ان ناولوں مىں نذىر احمد کے طرزو فکر اور اسلوب کا رنگ جھلکتا ہے۔ لىکن واقعات کو وہ جس وضاحت اور پُردرد انداز مىں بىان کرتے ہىں وہ ان کا خاص وصف ہے۔ ان کے ناولوں کو اردو داں طبقے نے کافى سراہا ہے۔ راشدالخىرى کى ناول نگارى اىک خاص مقصد کى نمائندگى کرتى ہے۔ وہ اپنے ناولوں سے وہى کچھ چاہتے تھے جو اکبر الٰہ آبادى اپنى شاعرى کے ذرىعے کررہے تھے۔ وہ خواتىن مىں مشرقى رواىات اور تہذىب کے تحفظ کا احساس دلانا چاہتے تھے جو اس وقت کا اىک اہم تقاضا تھا۔ کىوں کہ اس وقت مغربى افکار اور ىورپى تہذىب کا سىلاب مشرقى قدروں کو بہانے کى کوشش کررہا تھا۔ راشدالخىرى نے گھرىلو زندگى مىں عورتوں کو مرکزى اہمىت کا حامل تصورکىااوران کى فلاح و بہبود کے لىے اپنا سارا زورِ قلم صرف کردىا۔ ان کا ماننا تھا کہ مشرقى اقدار کى حفاظت اور مغربى تہذىب کو جڑ سے اکھاڑپھىنکنے کے لىے گھر سے بڑھ کر کوئى اور موزوں جگہ نہىں ہوسکتى تھى۔ اس لىے ان کے تمام ناول گھرىلو زندگى کے ارد گرد گھومتے نظر آتے ہىں، جو بنىادى سماجى تبدىلى کے لىے اىک اکائى کى حىثىت رکھتے ہىں۔ راشدالخىرى خواتىن کى اصلاح بذرىعہ تعلىم کرناچاہتے تھے۔ اسى لىے انھوں نے عورتوں مىں تعلىم کوفروغ دىنے، ان کى سماجى حىثىت بلند کرنے اور ان مىں احساسِ ذات پىدا کرنے کے لىے مسلسل تحرىر و تقرىر کا سہارا لىا اور اسى مقصد کے حصول کے لىے انھوں نے بے شمار ناول تخلىق کىے۔ وہ عورتوں کى تعلىم و تربىت کو قوم کى ترقى اور نشو ونما کے لىے نہاىت لازمى خىال کرتے تھے۔ ان کے خىال مىں عورتوں کى جہالت جب تک دور نہىں ہوگى اس وقت تک معاشرے کى اصلاح کا خىال اىک خواب ہى رہے گا۔ کىوں کہ ماں کى گود بچے کا پہلا مکتب ہوتى ہے اور بچے کى تربىت اور اس کے شعور کى تشکىل مىں ماں کا زبردست رول ہوتا ہے۔ ىہى وجہ ہے کہ راشدالخىرى نے اصلاحِ معاشرہ کے لىے تعلىمِ نسواں کو ضرورى سمجھا۔ اس کے ساتھ ہى ہر مسلم عورت کو اسلام کى صحىح اسپرٹ سے واقف کرانا اور اس کے بنىادى اصولوں پر عمل کرانا وہ اہم سمجھتے تھے۔ ان کا خىال تھا کہ اس کے بغىرعورت زندگى مىں ترقى نہىں کرسکتى۔
راشدالخىرى کا زمانہ آج سے بہت مختلف تھا۔ وہ اردو ناول کا بالکل ابتدائى دور تھا۔ اردو ناول نگارى ابھى اپنے ابتدائى مرحلے سے گزر ہى رہى تھى۔ اس کے خدو خال پورے طور سے واضح نہىں ہوئے تھے۔ ابتدائى دور کے بىش تر ناول نگاروں نے ‘مقصدىت’ کو زىادہ اہمىت دى ہے۔ جس کے سبب وہ فنى پہلوؤں پر پورى توجہ نہىں کرسکے۔ اس دور کے لحاظ سے جو بات اہمىت کى حامل ہے وہ ىہ کہ راشدالخىرى نے اپنے پىش رو نذىر احمد کى طرح ناول کا رشتہ حقىقى زندگى سے جوڑا۔ ناول صرف تفرىح کا ذرىعہ نہىں رہا بلکہ زندگى کے معاملات و مسائل کى پىش کش نے اردو ناول کے دامن کو وسىع کىا۔ مولانا کے ناولوں کے مطالعے سے ہمىں وہ نقطۂ نظر اور فلسفۂ حىات مل جاتا ہے جس کى وجہ سے ناول وجود مىں آتا ہے۔ ہمىں ان کے ىہاں جذبے کى حرارت، مقصد کى صداقت اور فکرو عمل کى صلابت بھى دىکھنے کو ملتى ہے۔ ىہى راشدالخىرى کى نال نگارى کا خاص امتىاز بھى ہے۔
راشدالخىرى کو ہمىشہ سے ىہ احساس تھاکہ عورتوں اور لڑکىوں کى تعلىم پر خصوصى توجہ نہىں دى گئى۔ عورتوں اور لڑکىوں کى حالت زار، ان کے اندر تعلىم وتربىت کا فقدان، ان کے حقوق پر مردوں کا غاصبانہ قبضہ، معاشرے اور کنبے مىں ان کى غلامانہ حىثىت کے وہ خود شاہد تھے۔ عورت خواہ مىکے مىں ہو ىا سسرال مىں، اس کى حىثىت باندى سے زىادہ نہىں تھى۔ لڑکىوں کى پىدائش لمحۂ مسرت کے بجائے مقامِ افسردگى بن چکى تھى۔ ہر معاملے مىں لڑکوں کو امتىازى حىثىت حاصل تھى۔ لڑکىوں کو والدىن ترکہ نہىں دىتےتھے۔ بىوہ کى شادى نہىں کرتے، مرد اىک بىوى کے ساتھ انصاف نہىں کرتے اور کئى شادىاں رچالىتے تھے۔ لڑکى پىدا ہوتے ہى سارى زندگى کے لىے جہنم کے عذاب مىں مبتلا ہوجاتى اور زندگى بھر گھٹ گھٹ کر جىتى رہتى تھى۔ راشدالخىرى کو عورتوں کى ان محرومىوں کا شدت سے احساس تھا۔ اور اسى پرىشانى اور اذىت ناکى کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے عورتوں کى اصلاح و تربىت اور ان کے حقوق کى بازىافت کى جدو جہد کو اپنى زندگى کا مشن بنالىا۔
راشدالخىرى کے عہد کى عورتىں عام طور سے جہالت کى شکار تھىں۔ تعلىمِ نسواں کے معاملے مىں مردوں کى غفلت اور سماجى رکاوٹوں کے علاوہ خود ان کى تعلىم سے بدظنى ان کى جہالت کى ذمے دار تھى۔ مولانا کے ناول ‘صبح زندگى’ مىں نسىمہ کى ماں جو اس دور کى عام عورتوں کى ذہنىت کو نماىاں کرتى ہے۔ تعلىم کے سلسلے مىں اس کا خىال ملاحظہ ہو:
“لڑکىوں کے پڑھانے لکھانے سے کىا فائدہ۔ ان کو کہىں نوکرى نہىں کرنى،۔ روٹى نہىں کمانى،۔ سارے جہاں کا حال بتا کر اور دىدہ دلىر کرنا۔”
(مجموعہ راشدالخىرى (صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار) فرىد بکڈپو جولائى ۲۰۰۵ ص۴۴)
اسى تنگ نظرى کا جواب سنجىدہ ان الفاظ مىں دىتى ہے:
“اللہ کاشکر ہے مىں بھى مسلمان ہوں اور تم بھى۔ ہمارے حضرت محمدﷺ نے فرماىا کہ علم ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔ نسىمہ کى ماں! تم بھى کىا بچوں کى سى باتىں کرتى ہو۔ پڑھنے سے اور عقل آئے گى ىا دىدہ دلىر ہوگی۔”
(مجموعہ راشدالخىرى (صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار) فرىد بکڈپو جولائى ۲۰۰۵ ص۴۴)
لوگوں کا عام خىال تھا کہ تعلىم کسبِ معاش کا ذرىعہ اور صرف مردوں کے ہى کام آسکتى ہے۔ اس کے علاوہ ىہ خوف بھى تھا کہ عورتىں پڑھ لکھ کر بے راہ روى کى طرف مائل ہو جائىں گى۔ اس لىے ‘صبح زندگى’ مىں نسىمہ کى ماں لکھنے پڑھنے کى مخالفت کرتے ہوئے کہتى ہے:
“لکھنا سکھانے کى تو مىرى صلاح ہر گز نہىں ہے۔ کو ن سے دفتر لکھنے ہىں۔ لکھنا آتا ہے تو جس کو چاہا لکھ بھىجا۔”
(مجموعہ راشدالخىرى (صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار) فرىد بکڈپو جولائى ۲۰۰۵ ص۴۴)
اس کى مزىد وضاحت راشدالخىرى سنجىدہ سے ىوں کرواتے ہىں:
“پىغمبر زادىاں اور پىغمبر صاحب کے زمانے کى مسلمان عورتىں علم کا درىا تھىں۔ موٹى سى بات ہے کہ علم آدمى کو آدمى بنادىتا ہے۔ پڑھ کر عورتىں خدا کو خدا سمجھنے لگىں گى، گناہ سے بچىں گى۔ برائى سے پرہىز کرىں گى، اىمان کو اىمان، عزت کو عزت، بڑوں کو بڑا، چھوٹوں کو چھوٹا، ہر چىز کى اصلىت معلوم ہوجائے گى۔”
(مجموعہ راشدالخىرى (صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار) فرىد بکڈپو جولائى ۲۰۰۵ ص۴۴، ۴۵)
تعلىم و تربىت سے بے گانگى نے شرفا کى عورتوں کو خانہ دارى کے سلىقے سے بھى ناآشنا کردىا۔ اس سلسلے مىں اس کى عدم توجہى سے ہر گھر مىں جو انتشار اور بے ترتىبى نظر آتى تھى، اس کا ذکر راشدالخىرى نے ‘صبح زندگى’ مىں تفصىل سے کىا ہے۔ ىہ ناول نسىمہ کى تعلىم و تربىت کے بارے مىں ہے۔ نسىمہ کى پھوپھى سنجىدہ نسىمہ کى تربىت اىک استانى رکھ کر کرواتى ہىں۔ لىکن اس تربىت مىں ان کا بھى خاص حصہ ہے۔ نسىمہ کو بات کرنے سے لے کر چلنے پھرنے، رہنے سہنے، اٹھنے بىٹھنے، پکانے، سىنے پرونے تک کى تعلىم دى گئى ہے۔ گوىا اس ناول مىں مصنف نے نسىمہ کا مثالى کردار پىش کىا ہے۔ بچپن سے جوانى تک کے تمام مرحلوں اور معمولى سے معمولى باتوں جس سے عملى زندگى مىں واسطہ پڑتا ہے، بىان کىا گىا ہے۔ ہر قصے مىں اخلاقى سبق ہىں جو نسىمہ کے ذہن نشىن کرائے گئے ہىں۔ نسىمہ چھوٹى سى عمر ہى مىں آدابِ مجلس سے واقف ہوجاتى ہے۔ ادب و تہذىب کى چھوٹى بڑى تمام باتىں اسے معلوم ہىں۔ جن سے کہ عملى زندگى تابناک بن جاتى ہے۔
راشدالخىرى کے نزدىک تعلىم صرف خواندگى اور کتابت کا نام نہىں تھا بلکہ ان کے نزدىک تعلىم اىک مکمل شخصىت کى تعمىر کا نام ہے اور ىہ بغىر تربىت کے ممکن نہىں۔ اس لىے ان کا سارا زور تعلىم کے ساتھ ساتھ تربىت پر بھى ہوتا تھا۔
راشدالخىرى نے اپنے مختلف ناولوں مىں گم راہ کن رسم ورواج پر بھى بحث کى ہے اور اس کے برے نتائج کو بھى پىش کىا ہے۔ ‘طوفان حىات ‘ مىں انھوں نے پىرى مرىدى اور دىگر برے رسم و رواج کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کىا ہے، جو مسلم معاشرے کو اندر ہى اندر گھن کى طر ح کھا رہے تھے۔ انھوں نے اپنے اس ناول مىں مرکزى کردار کى تارىک زندگى کے پہلو کو کچھ اس طر ح پىش کىا ہے کہ قارى برے رسم و رواج، جہالت، ضعىف الاعتقادى اور توہم پرستى سے پرہىز کرنے لگے۔ راشدالخىرى کے تمام ناولوں کا مرکزى کردار عورتىں ہوتى ہىں۔ اس لىے انھوں نے عورتوں کى جہالت اور اس سے پىدا ہونے والى خرابىوں کا بطور خاص ذکر کىا ہے۔ ‘منازل السائرہ’ راشدالخىرى کا اىک اہم ناول ہے۔ اس مىں سائرہ کى زندگى کے مختلف حالات کو نہاىت دل چسپ اور نصىحت آمىز طرىقے سے پىش کىا گىا ہے۔ ‘سائرہ’ اس ناول کا کلىدى کردار ہے۔ تعلىم سے محروم رہنے ، تربىت نہ ملنے اور برى صحبتوں کى وجہ سے سائرہ مىں دنىا بھر کے عىوب اور خرابىاں جمع ہوگئى ہىں۔ گھر کے لوگ اس کى حرکتوں سے پرىشان ہىں۔ سسرال والوں کى زندگى دو بھر بنى ہوئى ہے۔ غرض ىہ کہ وہ مجموعۂ جہالت ہے۔ جب ىہ ناول منظر عام پر آىا تو بے حد مقبول ہوا۔ چناں چہ ‘مخزن’ کے اىڈىٹر شىخ عبدالقادر نے راشدالخىرى کو ‘چارلس ڈکنس’کے خطاب سے نوازااور اس کتاب کے سلسلے مىں اپنى رائے کا اظہار ىوں کىا :
“منازل السائرہ مولوى صاحب کے مشہور طرِز تحرىر کا اىک عمدہ نمونہ ہے۔ مولوى نذىر احمد کى کتاب کے بعد منازل السائرہ ہى ان کے ڈھنگ پر اىسى کتاب لکھى گئى ہے جس کا مطالعہ خاص مستورات کے لىے مفىد ثابت ہوگا۔”
(سوانح عمرى علامہ راشدالخىرى، عصمت جولائى اگست۱۹۶۴ص۱۰۰)
منازل السائرہ راشدالخىرى کى نہاىت ہى کام ىاب تصنىف ہے۔ اہم کرداروں کے علاوہ ضمنى افراد کى گفتگو بھى ان کے عمر و حىثىت کے اعتبار سے ہے۔ موقع کے لحاظ سے جو واقعہ بىان کىا گىا ہے، اس کا نقشہ قارى کے سامنے کھىنچ کر رکھ دىا گىا ہے۔ جذبات نگارى اور منظر کشى کے اعتبار سے بھى منازل السائرہ اردو کے چوٹى کے اصلاحى ناولوں مىں ہے۔ منازل السائرہ کے واقعات محض دل چسپ ہى نہىں بلکہ سبق آموز اور عبرت ناک بھى ہىں۔
‘شام زندگى’ راشدالخىرى کى بہت ہى مقبول اور نمائندہ تصنىف ہے۔ اس مىں مصنف نے نسىمہ کو اىک آئىڈىل کے طور پر پىش کىا ہے اور وہ چاہتے ہىں کہ ہمارے معاشرے کى لڑکىاں بھى نسىمہ کى پىروى کرىں۔ قصے اور واقعات کو بىان کرنے مىں راشدالخىرى نے بہت ہى پُردرد اسلوب اختىار کىا ہے، جسے پڑھ کر قارى درد و غم کے جذبات مىں ڈوب جاتا ہے۔ ‘شام زندگى ‘کى اشاعت نے مصنف کوشہرتِ دوام بخشا۔ چناں چہ اسى ناول کى وجہ سے انھىں ‘مصورِ غم’ کا خطاب دىا گىا۔
راشدالخىرى بىواؤں کو عقدِ ثانى کا حق دلانا چاہتے ہىں، جو اسلام نے انھىں عطا کىا ہے۔ بىوہ عورتوں کو اس کے حق سے محروم کرنا ان کے نزدىک معاشرتى اور اخلاقى خرابىوں کا سبب بن سکتا ہے۔ چناں چہ ‘شب زندگى’ مىں نسىمہ کے اس اقدام کو سراہتے ہىں کہ اس نے بىوہ بہو کا نکاح کرکے اىک مذہبى فرىضہ اداکىا۔ وہ کہتے ہىں:
“بىوہ بہو کا نکاح کردىنا آسان نہ تھا۔ دل پر جو گزرى، اسى کا دل جانتا ہوگا۔ مگر خدا اور رسولؐ کے ارشاد مىں فرق نہ آنے دىا۔”
(مجموعہ راشدالخىرى [صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار] فرىد بکڈپوجولائى ۲۰۰۵ ص۳۱۱)
ان کا ناول ‘نوحہ زندگى ‘بطور خاص اسى مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر روشنى ڈالتا ہے۔ اس زمانے مىں جب بىوہ کے لىے دوسرا نکاح جرم تھا۔ سال چھ مہىنے کى بىاہىاں باپ بھائى کے ساتھ زندگى کے اىام اىسى ذلت آمىز طرىقے سے گزارتى تھىں کہ خدا دشمن کو بھى وہ وقت نہ دکھائے۔ نوکر چاکر مامالونڈى بلکہ پاؤں کى چىوٹى تک مخالف تھى۔ ‘نوحۂ زندگى ‘ مىں چند برسوں کى بىاہى جہاں آرا دو بچوں کو لے کر بىوہ ہوئى اور تقدىر نے بھائى بھاوج کے قدموں مىں لا ڈالا۔ بھتىجى کى شادى کا جب چڑھاوا آتا ہے، اپنى بىوگى کو بھول کر اس مجمع مىں پہنچ جاتى ہے، جہاں سات سہاگنىں دلہن کو چڑھاواچڑھا رہى تھىں۔ اس واقعے کو راشدالخىرى نے اس طرح لکھا ہے:
“دفعتاًفىروزہ کى نظر نند پر پڑى اور صورت دىکھتے ہى اىسى آپے سے باہر ہوئى کہ باوجود نہاىت معقول ہونے کے شرافت اور انسانىت سب ہاتھ سے کھو بىٹھى اور پورا ىقىن ہو گىا کہ جہاں آرامحض اپنى عداوت کى وجہ سے اس جلسے مىں صرف اس لىے آکر شرىک ہوئى کہ زىور کو ہاتھ لگا کر حشمت کو بھى بىوہ کردوں۔ اس ىقىن کے بعد کىاکسر تھى۔ کلہاڑىوں کى طرح اٹھى اور مردوں کے مانند کفن پھاڑ کر بولى: منجھلى آپا! غضب خدا کا، کىا ستم ڈھاىا اىسى بھاوج سے دشمنى اور بھتىجى سے عداوت تھى تو زہر دىا ہوتا۔ ہٹو، ىہاں سے خبردار! جو زىور کو ہاتھ لگاىا، کپڑوں کو چھوا۔”
(مجموعہ راشدالخىرى (صبح زندگى، شام زندگى، شب زندگى، نوحہ زندگى، فسانہ سعىد، نالہ زار) فرىد بکڈپو جولائى ۲۰۰۵ ص۴۸۸)
ہندستان کے قدىم رسم و رواج کى لعنت نے عورتوں کو ظلم و ستم کے شکنجے مىں کس دىا تھااور ان پر طرح طرح سے جبر و ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ اىسے حالات مىں راشدالخىرى نے مردوں کى زىادتىوں اور بے عنوانىوں کے خلاف آواز اٹھائى اور صنف نازک کى حماىت مىں زبان و قلم کى تمام قوتوں کو صرف کردىا۔ اس طرح مولانا کى تصانىف نے بہت سے مسلم گھرانوں کى اصلاح کى اور بہت سے خاندانوں کو تباہى کے گڑھے سے نکال کر عزت و خوش حالى کى سطح پر لاکر کھڑا کردىا۔ وہ مغرب کى اس آزادى کے خلاف تھے، جس نے عورت کى ‘نسائىت ‘کو پارہ پارہ کردىا تھا۔ وہ عورت کو کلب، سنىما ؤں، دفاتر اور اسٹىجوں پر دىکھنا پسند نہىں کرتے تھے۔ ان کى تعلىم کا لب لباب ىہ تھاکہ مسلم عورت کو وہى حقوق دىے جائىں، جو حضورصلى اللہ علىہ وسلم کے عہد مىں دىے گئے تھے۔
راشدالخىرى نے معاشرتى واصلاحى ناول کے علاوہ کئى تارىخى ناول بھى لکھے ہىں۔ ان کے چند اہم تارىخى ناولوں مىں ‘ماہِ عجم’، ‘ىاسمىنِ شام’، ‘آفتابِ دمشق’، ‘عروسِ کربلا’، ‘تىغِ کمال’، ‘اندلس کى شہزادى’، ‘شہنشاہ کا فىصلہ’، ‘امىن کا دمِ واپسىں ‘، ‘شاہىنِ دراج’، ‘محبوبِ خدا وند’اور ‘نوبت پنج روزہ’ قابل ذکر ہىں۔
راشدالخىرى کااسلامى تارىخ کا مطالعہ بہت وسىع تھا۔ انھوں نے اسلامى تارىخ کے اہم واقعات کو ناول کى صورت مىں پىش کىا ہے۔ قدىم وجدىداسلامى تارىخ کے دور کو اپنے ناول کا موضوع بناىا ہے۔ انھوں نے اپنے تارىخى ناولوں مىں عورت کے کردار کو بہت نماىاں کىا ہے اور ىہ کوشش کى ہے کہ مسلمانوں کے سامنے اىسى خواتىن پىش کى جائىں جو اخلاق و عادات و اطوار مىں دوسرى خواتىن کے لىے نمونۂ عمل ہوں۔ راشدالخىرى نے اپنے تارىخى ناولوں کو اپنے معاصرىن کى طرح صرف داستانِ حسن و عشق، جنگ و جدال نہىں بناىا ہے، بلکہ کام کى باتىں تحرىر کرکے اردو کے بہترىن ناول بنائے ہىں۔ جن کے مطالعے سے تفرىحِ طبع کے علاوہ تارىخ اسلام سے واقفىت حاصل ہوتى ہے۔
ان ناولوں کا اىک مقصد ىہ بھى تھاکہ اسلامى تارىخ کے متعلق ان غلط فہمىوں کا ازالہ کىا جائے جو عىسائى پادرىوں اور مورخوں کى گم راہ کن تبلىغ کى وجہ سے غىر مسلموں مىں پھىل گئى ہىں۔ انھوں نے اپنے تارىخى ناولوں کے ذرىعے مسلمانوں کے عروج کے اصل اسباب پر بہت کام ىابى کے ساتھ روشنى ڈالى ہے اور ىہ دکھاىا ہے کہ مجاہدىنِ اسلام کس طرح قربانىاں دىا کرتے تھے اور عورتىں بھى کس ہمت و جرأت کے ساتھ مىدانِ جنگ مىں شرىک ہوکر دادِ شجاعت دىتى تھىں۔ انھوں نے تارىخى ناولوں مىں اپنے قلم کے زور سے اىک تڑپ اور روح پىدا کردى ہے۔ اىسا معلوم ہوتا ہے کہ تارىخِ اسلام کے ان واقعات کو بىان کرتے وقت ان پر اىک روحانى کىفىت طارى ہوجاتى ہے۔ جس کے اثر سے مسلمانوں کے جوشِ اىمانى اور ان کى جرأت و بہادرى کى مکمل تصوىر پىش کردىتے ہىں۔
راشدالخىرى نہ صرف اىک ناول نگار، تحرىکِ نسواں کے بانى اور مصلح قوم تھے، بلکہ اىک بلند پاىہ مورخ، فلسفى اور اسلامى تہذىب کے سب سے بڑے علم بردار بھى تھے۔ ان کے ناولوں مىں کوئى بات اىسى نہىں ہے، جو تجربہ و مشاہدے کى کسوٹى پر پورى نہ اتر سکے ىا جس کى تارىخى شہادت نہ مل سکے۔ اس کے برخلاف ان کے معاصرىن کے بعض ناولوں مىں اىسے واقعات تحرىر ہىں جن کى نہ صرف تارىخى شہادت ملنى دشوار ہے بلکہ وہ غىر فطرى معلوم ہوتے ہىں۔ ان کے ناولوں کا مطالعہ کرتے وقت ہمارے دل مىں اىک احساس پىدا ہوجاتا ہے۔ جو اصلاح کا سب سے بڑا ذرىعہ بن جاتا ہے۔
راشدالخىرى کى تصانىف ىہ ثابت کرتى ہىں کہ وہ اىک صاحبِ نظر ادىب تھے۔ انھوں نے سىرت نگارى کے دشوارکام مىں بھى خاصى کام ىابى حاصل کى تھى۔ عورتوں کى سىرت نگارى مىں بطور خاص اہمىت رکھتے ہىں۔ حىات الصالحہ مىں صالحہ کى سىرت، عروس کربلا مىں روز کى سىرت اور صبح زندگى مىں نسىمہ کى سىرت نگارى کے اعلىٰ نمونے ہىں۔
بلاشبہ راشدالخىرى نے اپنے پھوپھا نذىر احمد سے بہت کچھ حاصل کىا اور انھى کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ناول کى شروعات کى۔ انھىں عورتوں کى زبان پر قدرت حاصل ہے۔ ان کى عبارتوں مىں زبان کى چاشنى اور طرزِ ادا کا لطف قارى کو متاثرکرتا ہے۔ واقعات کى تفصىلات بىان کرنے کى جو صلاحىت ىا قابلىت ان مىں ہے ىا جذبات نگارى مىں جو کمال انھوں نے پىدا کىا، اسى کے باعث وہ نذىر احمد سے بھى سبقت لے گئے ہىں۔ کسى بھى قدرتى مناظر، سماں، حلىہ ىا واقعات و حقائق کا اىسا نقشہ کھىنچتے ہىں کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغىرنہىں رہ سکتا۔
راشدالخىرى اىک منفرد شخصىت کے مالک تھے۔ اسلوبِ نگارش کے لحاظ سے وہ بلند مقام پر نظر آتے ہىں۔ مختصر جملوں سے عبارت کو دل کش بنا دىنا ان کا خاص کارنامہ ہے۔ اردو کے نقادوں نے ان کى سحر نگارى کا اعتراف اور طرزِ تحرىر کى تعرىف کى ہے۔ ان کے اسلوبِ بىان کے بارے مىں کہا جاتاہے کہ قلعہ معلى کى بىگماتى زبان کچھ اىسى لکھ گئے کہ ان کے بعد تو کىا ان کے سامنے بھى نہ لکھى گئى بلکہ ان کے ساتھ ہى ختم ہوگئى۔ بقول جوش ملىح آبادى:
شمع راتوں کو بہاتى تھى جو آنسو اٹھ گئى
دہر سے وہ کىا اٹھا دہلى سے اردو اٹھ گئى
انھوں نے اپنى تحرىروں مىں بىگماتى زبان اور عورتوں کے روز مرہ اور محاورات سے کام لىا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے کو ‘منازل السائرہ’ مىں جس انداز مىں پىش کىا ہے، وہ دىکھنے کے لائق ہے۔
خلاصہ کلام ىہ کہ علامہ راشدالخىرى قوم مىں اىسى خواتىن پىدا کرنا چاہتے تھے جو قوم کى تعمىر و تشکىل اور اس کى ترقى مىں معاون ہوں۔ مولانا کے فکر و فن کے مطالعے سے ىہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اىک کام ىاب ناول نگارہىں، مگر بعض سطحوں پر کچھ عىوب نظر آتے ہىں لىکن ناول اس وقت تعمىر و تشکىل کے دور سے گزر رہا تھا۔ اس کے خد وخال واضح نہىں ہوئے تھے اور چند لوگ ہى ناول نگارى کى طرف متوجہ تھے۔ اس ابتدائى دور مىں راشدالخىرى نے ناول کو مقبول بنانے کى کوشش کى۔ اس طرح ان کى حىثىت تارىخى ہوجاتى ہے۔ وہ اردو دنىا مىں تحرىکِ نسواں کے اولىن علم بردار وں مىں سے تھے۔ انھوں نے اپنى پورى زندگى عورتوں کى اصلاح اور ان کى سماجى حىثىت بلند کرنے اور ان مىں احساسِ ذات پىدا کرنے کے لىے مسلسل تحرىر و تقرىر کا سہارالىااور اسى مقصد کے حصول کے لىے وہ اپنے ناولوں کے ذرىعے بھى تبلىغ کرتے رہے۔
Assistant Professor CPDUMT, MANUU
Hyderabad