ذوقؔ دہلوی کی قصیدہ گوئی

ڈاکٹر محمد مجاہد حسین
ستمبر 2022

اردو کے بڑے قصیدہ نگاروں میں ذوقؔ شاید اکیلے ہیں جن کے قصیدے کا موضوع صرف درباری مداحی ہے۔ ان کی عمر کا بیش تر حصہ بہادر شاہ ظفر کی ثناخوانی میں گزرا۔
ذوقؔ کی قصیدہ نگاری کے متعلق محمد حسین آزادؔ کی یہ رائے بہت غنیمت ہے کہ “نظم اردو کی نقاشی میں مرزائے موصوف (یعنی سوداؔ) نے قصیدے پر دست کاری کا حق ادا کردیا۔ ان کے بعد شیخ مرحوم کے سوا کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا اور انھوں نے مرقع کو ایسی اونچی محراب پر سجایا کہ جہاں کسی کا ہاتھ نہیں پہنچا۔ انوریؔ، ظہیرؔ، ظہوریؔ، عرفیؔ فارسی کے آسمان پربجلی ہو کر چمکتے ہیں لیکن ان کے قصیدوں نے اپنی کڑک دمک سے ہند کی زمین کو آسمان کردکھایا۔”
آزادؔ ہی کی روایت کے مطابق انیس (۱۹) برس کی عمر میں ذوقؔ کے ایک قصیدے پر جس کا مطلع تھا :
جب کہ سرطان و اسد مہر کا ٹھہرا مسکن
اب واویلہ ہوئے نشو و نمائے گلشن
اور جس میں طرح طرح کی صنعتوں کے علاوہ اٹھارہ زبانوں میں شعر تھے۔ اکبر شاہ نے ‘خاقانی ہند’ کا خطاب عطا کیا تھا۔ ذوقؔ کے قصائد کی تعداد کے متعلق آزادؔ کا قول ہے کہ اگر جمع ہوئے تو خاقانی ہند کے قصائد خاقانی شروانی سے دو چند ہوتے لیکن افسوس کہ اس کی نوبت نہ آئی۔
ذوقؔ پہلے قصیدہ گو ہیں جنھوں نے حمد و نعت اور منقبت میں کوئی مکمل قصیدہ یادگار نہیں چھوڑا، سوائے ایک قصیدے کے جو ایک بزرگ سید عاشق نہال چشتی کی مدح میں ہے۔ ان کے تمام قصیدے اکبر شاہ ثانی اور ابو ظفر بہادر شاہ کی مدح میں ہیں۔ ذوقؔ نے قصیدہ گوئی میں کوئی خاص جدت نہیں بلکہ عموماً سوداؔ کے قائم کیے راستے پر چلتے رہے۔ لیکن ان کا فن تنقیدی ہونے کے باوجود صناعی اور فن کاری کا ایک کام یاب نمونہ ہے۔ الفاظ کی شان و شوکت، بلند آہنگی، زبان کی صفائی، مضمون آفرینی اور علمیت کی بدولت ان کے قصیدے ایک خاص وقار کے مالک ہیں۔
ذوقؔ نے عموماً شگفتہ اور رواں زمینیں منتخب کی ہیں لیکن بعض قصیدے سنگلاخ زمینوں میں بھی کہے ہیں۔ مثلاً :
گردش میں چشم مست کی ہو دل مرا گرہ
اور کھولے ہائے دانہ کی یوں آسیاگرہ

ہیں مری آنکھوں میں اشکوں کے تماشا گوہر
اک گہر دیکھوں تو ہوں کتنے ہی پیدا گوہر
ذوقؔ نے ترنم اور روانی کا خاص خیال رکھا ہے۔ الفاظ و تراکیب کے انتخاب اور ترتیب میں خوش آہنگ کو مدنظر رکھنے کے علاوہ، بعض قصائد ممنونؔ دہلوی کی طرح طویل اور مترنم بحروں میں کہے ہیں اور مرصع ترکیبوں اور برابر کے ٹکڑوں کے استعمال سے بڑی شعریت پیدا کردی ہے۔ ایسے دو قصائد کے مطلع ہیں:
سحر جو گھر میں بشکل آئینہ تھا میں بیٹھا نزاد حیراں
تو اک مری چہر ہ حور طلعت بشکل بلقیس ماہ کنعان
صبح سعادت نور ارادت تن بہ ریاضت دل بہ تمنا
جلوہ قدرت، عالم وحدت بہ حشم بصیرت محو تماشا
جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ ذوقؔ نے جدت سے زیادہ کام نہیں لیا لیکن صناعی ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ ا نھوں نے مختلف ارکان کے تقاضوں کو عموماً بڑی خوبی سے پورا کیا ہے۔ اکثر قصائد میں بہاریہ، رندانہ اور نشاطیہ تشبیہیں لکھی ہیں، معشوق کا سراپا نظم کیا ہے یا خوش خبری اور عیش و طرب کو مشخص کیا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب میں ممدوح کی صحت یابی کی رعایت سے موسم کی معتدل کیفیات کا بیان کیا ہے۔ بہاریہ مضامین میں حسب معمول مبالغہ اور تخئیل کا رنگ غالب ہے۔ لیکن کہیں کہیں محاکات کادامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا ہے۔ ایک قصیدے کی تشبیب میں برسات کے ذکر اور بہاریہ و رندانہ مضامین کے امتزاج سے بڑی لطافت پیدا ہوگئی ہے:
ساون میں دیا پھر مہ شوال دکھائی
برسات میں عید آئی، قدح کش کی بن آئی
کوندے ہے جو بجلی تو یہ سوچے ہے
نشہ میںساقی نے ہے آتش سے مئے تیز اُڑائی
گریز میں ذوقؔ نے اکثر و بیش تر بڑی موزونی اور برجستگی دکھائی ہے۔ جن قصائد کی تشبیب میں خوشی، عیش اور طرب کو مشخص کیا یا معشوق کا سراپا لکھا ہے ان میں عموماًسوداؔ ہی کی طرح مکالمے کے ذریعے سے گریز کیا ہے۔ دوسرے قصائد میں عموماً اختصار سے کام لیا ہے۔ مثلاً ایک قصیدے میں اخلاقی مضامین نظم کرتے ہوئے دو عاشقانہ شعر بھی کہہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد کہتے ہیں:
ذوقؔ موقوف کر اندازِ غزل خوانی کو
ڈھونڈاس بحر میں، اب تو کوئی اچھا گوہر
اثرِ مدح سے اس خسروِ دریا دل کے
کر سخن قابلِ گوش دلِ دانا گوہر
لیکن قصیدوں میں گریز میں کوئی خاص اہتمام نہیں کیا ہے اور تشبیب کے بعد کسی قدر غیر مربوط طریقے سے مدح شروع کردی ہے۔
مدح میں ذوقؔ نے عموماً بڑا زورِ طبع دکھایا ہے اور پُرشکوہ الفاظ و تراکیب سے ایک طلسم پیدا کردیا ہے۔ مبالغہ اور تخئیل کا عنصر بھی جاری و ساری ہے۔ ممدوح کے مرتبہ، شجاعت، عدالت اور خلق وغیرہ کی تعریف بڑے زور و شور سے کی ہے۔ اس رنگ کے پُر زور اشعار ان کے قصیدوں میں کثرت سے ملتے ہیں:
وہ بادشاہ جس کا بہادر شہہ اسم پا کہے
درجک زمانہ کا یکتا در خوش آب
ظل اللہ خسروِ دیں دار، دیں پناہ ، شاہِ بلند جاہ و خدیو فلک جناب ممدوحین کے اوصاف کے بیان کے علاوہ ذوقؔ نے ان کے سازو سامان، تیر، تلوار، گھوڑے، ہاتھی، مطبع اور آتش بازی وغیرہ کی تعریف بھی بڑے انہماک کے ساتھ کی ہے۔ گھوڑے اور ہاتھی کی تعریف میں عموماً طوالت سے کام لیا ہے۔ مضامین کا دائرہ کم و بیش وہی ہے جو سوداؔ کے قصائد میں ہے لیکن ان میں نئے نئے پہلوؤں، تشبیہوں اور استعاروں سے رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے۔ گھوڑے کی تعریف میں کہتے ہیں:
عرصۂ معرکہ میں گر تجھے اے شاہ سوار
اس سبک سیر سے منظور ہو کار تعجیل
جائے توں جیسے ہو اسم بھی نہ پانی سے ہو تر
نہ ہو پروا اسے ہے راہ میں تالاب کہ جھیل
اسی قصیدے میں ہاتھی کی تعریف کی ہے:
کوہِ ابرز کو سائے میں دبا لے اپنے
ہے وہ اے شاہ فلک رتبہ تری رفعت فیل
تو جو محراب عمادی میں ہوا جلوہ نما
اس کے دانوں پہ یہ خرطوم سے سوجھی تمثیل
خانۂ قوس میں خورشید جہاں تاب آیا
دن ہیں کوتاہ ہوئے اور ہوئی رات طویل
علمیت اور معنی آفرینی میں ذوقؔ کے قصائد خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ علمیت کی کار فرمائی ان کے قصائد میں سوداؔ سے زیادہ ہے۔ ساتھ ہی اس کو انھوں نے بے اعتدالیوں سے محفوظ بھی رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے انشاؔ کے رنگ کے قصائد جابجا مضحکہ خیز ہوگئے ہیں۔ زیادہ ادق رنگ کے قصائد میں خشکی ضرور پیدا ہوگئی ہے لیکن انھوں نے متانت اور سنجیدگی کو کہیں بھی مجروح نہیں ہونے دیا ہے۔ ان قصائد کے علاوہ جو خاص علمی رنگ میں ہیں، ان کے دوسرے قصائد میں بھی عالمانہ گہرائی، متانت اور سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ کبھی کبھی علمیت کی شگفتہ رو کو انھوں نے مضمون آفرینی، مبالغہ آرائی، حسنِ تعلیل، تلمیح و تمثیل، تشبیہہ و استعارہ، الفاظ اور تراکیب، غرض کہ خیال و بیان کے تمام پہلوؤں میں بڑی خوبی سے سمو دیا ہے۔
فارسی الفاظ کی تراکیب کو علمی وزن اور وقار، ندرت، زور اور صفائی کے ساتھ استعمال کرنے میں انھیں خاص ملکہ ہے۔ آیات و احادیث کے ٹکڑوں اور دوسرے عربی فقروں، تراکیب اور ضرب الامثال کے بر محل استعمال سے بھی ان کا علمی رجحان نمایاں ہے۔ مثلاً:
آخرش دیکھا تو العلم حجاب اکبر
عاقبت پایا تو ہاں بلہ کو اہل جنت
نازک اندام وہ اور سنگ دل ان سے بھی سوا
آیا جن سنگ دلوں کے لیے ہے ثم تست
قصیدہ گوئی میں ذوقؔ کی بڑائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن وہ سوداؔ کے رتبے کو نہیں پہنچتے۔ ان کے قصائد میں مضامین کا تنوع ضرور پایا جاتا ہے لیکن اس کا دائرہ سوداؔ کی طرح وسیع اور ہمہ گیر نہیں ہے۔ واقعہ نگاری کو انھوں نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ان کے قصائد سے ان کے زمانے کے ملکی و معاشرتی حالات اور ادبی فضا کا براہ راست کچھ پتہ چلتا ہے جب کہ ان عناصر کی موجودگی نے سوداؔ کے قصائد کو بہت بلند کردیا ہے۔ وہ ترنم، روانی اور بلند آہنگی کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور پرشکوہ الفاظ و تراکیب کا ایک خوش نما انبار لگا دیتے ہیں۔ ان کے قصائد حشو وزائدسے پاک اور عموماً بڑے ہم وار ہیں۔ اس پر نئی نئی تشبیہیں اور استعارے مستزاد کا کام دیتے ہیں۔ مشرقی علوم و فنون کی اصطلاحات کے استعمال اور دیگر علمی خصوصیات کی وجہ سے ان کے قصائد میں بڑا وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کا عالمانہ رنگ بلا شبہ سوداؔ سے زیادہ مستقل ہے۔ مقدار کے اعتبار سے انھوں نے معنی آفرینی پر بھی سوداؔ سے زیادہ توجہ مبذول کی ہے۔ لیکن مجموعی حیثیت سے ان کے قصائد سوداؔ کے مقابلے میں کم زور ہیں۔ ان میں ذہنی اپج، طباعی، تخئیل کی ندرت وبلندی اور طرزِ ادا کی تازگی و شگفتگی کا وہ معیار نہیں جو سوداؔ کے قصائد میں ملتا ہے۔ ایک حد تک کام یابی کے بعد ان کے قصائد میں آورد و تصنع کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے اور ان کی متانت و سنجیدگی خشکی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ ذوقؔ نے متعدد مضامین و تشبیہات سوداؔ سے اخذ کیے ہیں۔ لیکن وہ سوداؔ کی فطری برجستگی اور لطافت کو عموماً برقرار نہیں رکھ سکے۔ سوداؔ کے مقابلے میں ان کے قصائد میں تسلسل بیان کی بھی کمی ہے۔ ذوقؔ کے برعکس سوداؔ نے بزرگانِ دین کی شان میں بھی معرکۂ آرا قصیدے لکھے ہیں۔ سوادؔ مدح اور ہجو دونوں کے بادشاہ ہیں۔ لیکن ذوقؔ ہجو کے کوچے سے نابلد ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ قصیدہ نگاری میں ذوقؔ کے فن کا دائرہ سوداؔ کے مقابلے میں بہت محدود ہے۔ زبان کی صفائی میں ذوقؔ کو سوداؔ پر جو امتیاز حاصل ہے وہ شاعرانہ صلاحیتوں کے بجائے زمانے کے فرق کا نتیجہ ہے۔

Asst. Prof. Department of Urdu
Purnea College, Purnia, Bihar
Mob.–9955978665

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ