ادب اردو کے جدید شعرا اور نقادوں میں جو ادبی و شعری شخصیات نمایاں رہی ہیں، ان میں خلیل الرحمن اعظمی کو ایک عبقری مقام حاصل ہے۔ انھوں نے ادب کے وسیع تر مطالعہ اور تجربوں سے اپنی غزلوں اور نظموں میں نئی نئی سمت کی نشان دہی کی۔ آزادی کے بعد جن نوجوان شعرا میں عرفان میرؔ کا رجحان پیدا ہوا، خلیل الرحمن اعظمی ان میں پیش پیش تھے۔ روایت شناسی اور عصری آگہی کا امتزاج ان کے کلام کا وصف خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اردو شاعری کی جدید ادبی دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
خلیل الرحمن اعظمی(۱۹۲۷ تا ۱۹۷۸) مشرقی یوپی میں اعظم گڑھ کے ایک دینی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا محمد شفیع (بانی مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ) کی حیثیت علاقے میں ایک داعی اور رہبرِ قوم کی تھی۔ خلیل الرحمن اعظمی نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسے سے حاصل کی۔ شبلی نعمانی کے قائم کردہ اسکول’نیشنل کالج’سے میٹرک پاس کیا اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کرتے ہوئے یونیورسٹی کے ہی شعبہ اردو میں بحیثیت لکچرر ۱۹۵۳ء میں اپنی خدمات شروع کی اور تاعمر اس سے وابستہ رہے۔ شعبہ اردو سے منسلک رہتے ہوئے انھوں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک’پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں لکھا۔ جس کی حیثیت ادب اردو میں تاریخی دستاویز کی ہے۔
کتب بینی اور ادبی کتابوں کو پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ جہاں جہاں وہ زیر تعلیم رہے، وہاں کی لائبریری میں موجود ادبی کتابوں سے استفادہ کیا۔ گاؤں میں بھی ایک لائبریری قائم تھی جس کے سکریٹری وہ خود تھے۔ ایک قلمی رسالہ”بیداری” نکالا۔ جس میں وہ خود بھی لکھتے اور گاؤں کے دوسرے ہم جماعت طالب علموں سے بھی لکھواتے۔ ابتدائی شاعری میں میرؔ کا لہجہ اپنایا لیکن بدلتے رجحانات کے سبب فراقؔ اور بعد میں فیضؔ کے جدید لہجے میں اپنی شاعری کی اساس رکھی اور اس میں بھی انفرادیت قائم کی۔
خلیل الرحمن اعظمی ادب اردو کے جدید شاعر ہی نہیں بلکہ ادب کے ماہر محقق اور نقاد بھی تھے۔ ۱۹۴۸ء میں جب وہ بی اے کے طالب علم تھے تو انھوں نے خواجہ حیدر علی آتشؔ پر ایک تحقیقی و تنقیدی مقالہ لکھا جو رسالہ”نگار” میں قسط وار شائع ہوا۔ ادبی حلقوں میں اس مقالے کی خوب پذیرائی ہوئی۔ اس کے ایڈیٹر نیاز فتحپوری نے اپنے اداریے میں لکھا ہے: “ان مضامین میں وہی آن بان ہے جو آتشؔ کی شاعری کی خصوصیت خاصّہ ہے۔” اور استاذ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے خلیل الرحمن اعظمی کو’آتشؔ پرست’کا خطاب دے ڈالا۔ یہ مقالہ’مقدمہ کلام آتشؔ’کے نام سے ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا۔ اس مقالے کے تعلق سے خلیل الرحمن اعظمی مقدمہ کلام آتش کے احوال واقعی میں لکھتے ہیں:
“یہ مقالہ تنقید یا تحقیق کے کسی ادعا کے بغیر آتشؔ کی شاعری کے بنیادی عناصر اور ان کے شعری مزاج کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ اس موضوع پر اسے حرف آخر نہیں بلکہ حرف اول کی حیثیت سے پڑھنا چاہیے۔ اس تعارفی تنقید نے معتبر اور مستند لکھنے والوں کو آتش پر تفصیلی تنقید کے لیے اکسایا تو میں سمجھوں گا کہ میری سعی رائیگاں نہیں ہوئی۔” (۱)
اس مقالے کی اشاعت کے بعد ہی خلیل الرحمن اعظمی کی شخصیت نقاد کی حیثیت سے نمایاں ہوئی اور ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی۔ خلیل الرحمن اعظمی جب مکتب سے اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر رہے تھے تو اس وقت ترقی پسند تحریک اپنے عروج سے زوال کی طرف رواں تھی۔ انھوں نے بھی اس تحریک کی روایتی رکنیت حاصل کی اور علی گڑھ شاخ کے سکریٹری بنائے گئے لیکن تحریک سے بغیر کسی اختلاف و انحراف کے جدید شاعری میں اپنا قدم جمانا شروع کیا اور شاعری میں نئی نئی اور جدید طرز شاعری کی نشان دہی کی۔ ایک طرح سے انھوں نے اردو شاعری میں نئے طرز کی بنیاد رکھی۔
ایم اے کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد خلیل الرحمن اعظمی ‘علی گڑھ گزٹ ‘کے ایڈیٹر ہوئے۔ اپنے تحقیقی و تنقیدی مضامین کے ذریعے اس گزٹ کو علمی و ادبی حلقوں میں روشناس کیا جس سے گزٹ کی مقبولیت بڑھی اور پڑھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اس گزٹ کو علمی و ادبی حلقوں میں خوب سراہا جانے لگا مگر چند ارباب گزٹ کو یہ بات پسند نہ آئی اور مخالفت شروع کر دی جس کے نتیجے میں خلیل الرحمن اعظمی کی ادارت موقو ف ہوگئی۔ اس گزٹ میں خلیل الرحمن اعظمی نے کئی اہم شعرا پر تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے اور کچھ مضامین اس وقت کے مقبول رسائل ‘نگار’اورا’ٓج کل’ میں شائع ہوئے۔ یہ تحقیقی و تنقیدی مضامین دس اہم شعرا غالبؔ، ظفرؔ، دردؔ، حسرتؔ، داغؔ، مومنؔ، جوشؔ، جمیلؔ مظہری، مجازؔ اور جذبیؔ کی شاعری پر مشتمل ہیں۔ ان مضامین کا مجموعہ”فکر و فن” کے نام سے۱۹۵۶ء میں شائع ہوا۔ یہ سب مضامین شخصیت اور شاعری سے متعلق ہیں جن کو خلیل الرحمن اعظمی نے ایک نئے زاویے سے تحریر کیا ہے۔ ان مضامین کے شائع ہوتے ہی خلیل الرحمن اعظمی ایک معتبر اور معروف نقاد کی صف میں شامل ہوگئے لیکن وہ تنقید نگاری کو پیشہ بنا لینے کے سخت مخالف تھے۔ ان مضامین کے بارے میں مجموعہ ‘فکروفن ‘کے معروضات میں خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
” مجھے اس بات پر اصرار نہیں کہ ان مضامین کو تنقید کے زمرے میں شامل کیا جائے۔ میں نے مروجہ تنقیدی نظریات اور اصولوں کی پابندی کم کی ہے۔ اچھے ادب کا براہ راست مطالعہ اور ادب کے خصوصیات کو سمجھنے اور ان کا معیار اور سطح مقر رکرنے سے مجھے زیادہ دل چسپی رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ میں ان تنقیدی اصولوں سے ناواقف ہوں۔”(۳)
۱۹۵۷ء میں خلیل الرحمن اعظمی نے اپنا تحقیقی مقالہ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک’مکمل کیا، جس پر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) نے ۱۹۷۲ء میں پہلی بار شائع کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے شعبہ اردو میں لکچر شپ مل جانے کے بعد ان کی زندگی خوش گوار ماحول میں گزرنے لگی۔ ان کے احباب کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا گھر علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ خلیل الرحمن اعظمی اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: “ہندوستان و پاکستان کا شاید ہی کوئی ادیب ایسا ہوگا جو علی گڑھ آیا ہو اور ہمارے گھر نہ پہنچا ہو۔” اس طرح تمام ہی نامور ادیب، شاعر اور نقاد ان کے علمی و ادبی صلاحیتوں کے قائل اور معترف ہوگئے یہاں تک کہ جب کبھی بھی کسی شاعر، ادیب، نقاد اور محقق کو علمی و ادبی مسئلہ درپیش ہوتا تو ان سے رجوع کرتے۔ یہ سب ان کے قدیم و جدید ادب پر گہرا مطالعہ اور عمیق نظر کا نتیجہ تھا۔
تحقیقی و تنقیدی مضامین کا دوسرا مجموعہ”زاویہ نگاہ” ہے۔ جو ان کے مجموعہ ‘فکروفن ‘کے دس سال بعد ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں کل نو مضامین اردو تنقید کے مسائل، جگرؔ مرادآبادی، اخترؔالایمان، دو نئے شعری مجموعے، سرسیدؔ کے ادبی تصورات، اردو شعر و ادب میں علی گڑھ کا حصہ، اردو نظم کا نیا رنگ و آہنگ، فراقؔ گورکھپوری، ابوالکلام آزادؔ کے مکاتیب ہیں۔ ان میں پانچ مضامین شاعری کی تنقید سے متعلق ہیں اور ان میں خلیل الرحمن اعظمی کی شخصیت کی چھاپ ہے جو ان ہی کارفرمائی ہے۔ ان میں روایت سے باغیانہ پن اور قدیم وجدید کے درمیان ایک توازن قائم ہے جو ان کی گہری فکر کا غماز ہے۔ شاعری کی تنقید کے علاوہ مجموعہ ‘زاویہ نگاہ ‘میں نثری ادب پر بھی مضامین شامل ہیں۔ ان تنقیدی مسائل پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ تذکروں کی تنقید سے لے کر حالیؔ اور ان کے بعد کی تنقید سے ادب کو نہ صرف فائدہ پہنچا ہے بلکہ فہم وادراک میں اضافہ بھی ہوا ہے اور اس نے قدیم شعری سرمایہ کا ازسر نو جائزہ لینے میں ہماری مدد بھی کی ہے۔ مجموعہ’زاویہ نگاہ ‘کے پیش لفظ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی ان کی تنقیدی بصیرت کی تعریف میں لکھتے ہیں:
“متوازن، پُرمغز اور فکر انگیز تنقید نگاری حالی ؔ کی لائی ہوئی وہ روایت ہے جس کے بروقت اور برحق ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اپنے عہد میںاس کی جتنی شدید مخالفت کی گئی بعد میں اس کووہی منزلت نصیب ہوئی۔ یہ روایت حالیؔ اور عبد الحق سے ہوتی ہوئی اعظمی تک پہنچتی ہے۔”(۴)
خلیل الرحمن اعظمی کا تیسرا اور آخری تنقیدی و تحقیقی مجموعہ ‘مضامین نو’ہے۔ جس میں عصری مضامین پر سات مضامین، ادب کے نئے مسائل پر پانچ مضامین، اور مضامین نما پندرہ تبصرے نیز شاد عارفی اور پرویز شاہدی کی شخصیت پر دو مضامین شامل ہیں۔ اس مجموعے کو چار ابواب، مضامین، مسائل، تبصرے اور شخصیات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مضامین کے باب میں مثنوی سحر البیان، کچھ خطوط غالب کے بارے میں، شبلی کا تنقیدی مسلک، نئے شعری رجحانات، جدیدتر غزل، راشد کا ذہنی ارتقا، کلام اور صاحب کلام جیسے مقبول مضامین ہیں۔ مسائل کے باب میں اردو نثر کے ایک انتخاب کی ضرورت، نثر کا اسلوب، نئی شاعری کی نکتہ چیں، ادب میں فامولا بازی جیسے دقیق مسائل پر مضامین ہیں۔
مولانا حالیؔ اور ان کے بعد کی ترقی پسند تنقید میں ایک خاص طرح کا ادبی رجحان ملتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی پہلے ایسے نقاد ہیں، جنھوں نے اپنی جدید شاعری کی طرز پر فن تنقید میں بھی نیا رنگ و آہنگ اختیار کیا لیکن وہ حالیؔ کے برعکس شبلی نعمانی کے زیادہ قریب تھے۔ شبلی جمالیاتی نقاد ہیں تو خلیل الرحمن اعظمی اس جمالیات کی روح ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جدید تر شاعری اقبال کی شعری خصوصیت کا تسلسل یا اس کی تشکیل نو ہے۔ اپنے ایک مضمون”جدید تر غزل” جدید شاعری کے اوصاف اور امتیاز پر خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
“جدید تر شاعری کی ایک نسل ایسی پیدا ہو چکی ہے جو انکار و اثبات کے دو راہے پر اپنی شخصیت اور اپنے ذہن کو پارہ پارہ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ یہ نسل جو کافر ہے نہ مومن… لیکن بدلتے ہوئے رشتوں کو سمجھ کر زندگی کے آہنگ کو دریافت کرنا چاہتی ہے۔”(۶)
اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک خلیل الرحمن اعظمی کا ایک تحقیقی مقالہ ہے، جس پر ان کو ۱۹۵۷ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ تنقید اس لیے ہے کہ اس سے قبل ترقی پسند تحریک پر سردار جعفری، عزیز احمد، اختر حسین رائے پوری اور سجاد ظہیر نے اس موضوع پر جو کتابیں اور مضامین لکھا ہے۔ ان سب کا رویہ وضاحتی یا تبلیغی رہا ہے اور تحریک کے محرکات و عوامل اور اس کے سمت و رفتار کا رخ متعین کرنے میں جانب داری سے کام لیا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی اس تحریک سے وابستہ تو رہے ہیں لیکن نہ تو اس کی مخالفت کی ہے اور نہ ہی موافقت کا اظہار کیا ہے بلکہ اپنی تحریروں میں توازن اور اعتدال پیدا کرکے ترقی پسند تحریک کی تاریخ اور اس کے ادبی سرمائے کو غیر جانب داری سے پیش کیا ہے اور ترقی پسند ناقدین کو پہلی بار ایک نئی سمت اور نئی فکر سے آشنا کیا ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی نے بہادر شاہ ظفر کے کلام کا انتخاب ‘نوائے ظفر’کے نام سے مرتب کیا جس کو انجمن ترقی اردو (ہند) نے ۱۹۷۵ء میں شائع کیا ہے۔ اس انتخاب میں ظفرؔ کے وہ تمام کلام شامل کیے ہیں جو ان کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ ان کے وہ تمام اصناف کا ذکر آجائے جن کو ظفرؔ نے اپنی شاعری میں برتا ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی ایک اور ادبی تحریر مثنوی سحر البیان کا مقدمہ ہے، جو تقریباً ۲۵ صفحات پر مشتمل ہے۔ میر حسن کی مثنوی سحر البیان کی مقبولیت زمانہ تصنیف سے لے کر آج تک قائم ہے۔ اس مثنوی کے تعلق سے خلیل الرحمن اعظمی نے کئی ایک سوالات قائم کیے ہیں: آج اردو ادب کا طالب علم اس مثنوی کا مطالعہ کس زاویہ نظر سے کرے؟ اس کی ادبی و جمالیاتی قدر و قیمت کیوں کر متعین کرے؟ یا صرف اسے سرسری طور پر پڑھ کر ایک رائے قائم کرلے؟ وغیرہ۔ پھر اس کا جواب بھی دیا۔ خلیل الرحمن اعظمی اپنے مضمون مثنوی سحرالبیان کے مقدمے کے اختتامیہ پر لکھتے ہیں:
“نہ ہی یہ کوئی ایسی خیالی اور فرضی داستان ہے جو محض لوگوں کو دل بہلانے یا لطف لینے کے لیے لکھی گئی ہے۔ اس تصنیف میں میر حسن نے اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔ اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کیا ہے۔ اپنی ذہانت و فطانت، فراست و بصیرت، فنّی آگہی و لسانی شعور کا ثبوت اس مثنوی کے ہر ہر مصرعے سے فراہم کیا ہے۔ یہ کہانی نہیں تہذیبی دستاویز ہے۔ یہ شعر محض نہیں صحیفہ حیات ہے۔”(۸)
خلیل الرحمن اعظمی محقق ہونے کے ساتھ ساتھ نقاد بھی تھے۔ محقق کی حیثیت سے پی ایچ ڈی کا مقالہ ‘اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک’ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دراصل وہ نقاد پہلے اور محقق بعد میں ہیں۔ نقاد کی حیثیت سے اپنے ایک مضمون ‘نئے شعری رجحانات’ میں نقاد کے لیے کچھ اصول وضع کیے ہیں۔ جس کو انھوں نے خود بھی اپنایا اور دوسروں کو بھی اس راہ پر چلنے کی تلقین کی ہے۔ تنقیدی اصول کے بارے میں خلیل الرحمن اعظمی لکھتے ہیں:
“نقاد کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کی تخلیقات کو سمجھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرے۔ اپنے دور کے طرزِ احساس، طرزِ فکر اور آہنگ و اسلوب سے موانست پیدا کرے اور ماضی و حال کے ربط کو سمجھ کر فنی تخلیقات کی گہرائیوں میں جاکر ان کی کام یابی یا ان کی ناکامی کا راز معلوم کرے۔”(۹)
ان سب تحقیقی و تنقیدی مقالے اور مضامین کے جائزے کے بعد خلیل الرحمن اعظمی کے متعلق یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے تحقیق و تنقید میں نہ تو ماضی کی روایت کو اپنایا اور نہ ہی جدید تحقیقی و تنقیدی روایت و اسلوب کو اختیار کیا بلکہ روایت شناسی اور عصری آگہی کا امتزاج پیدا کرکے اپنی مخصوص چھاپ قائم کی اور شاعری کی طرح تحقیق و تنقید میں بھی جدید اور نئے طرز کی بنیاد رکھی۔
حوالہ جات:
(۱) مقدمہ کلام آتش، خلیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی۲۰۰۸
(۲)ن یا عہد نامہ، خلیل الرحمن اعظمی، انڈین بک ہاؤس علی گڑھ ۱۹۶۵، ص ۱۶۔
(۳) فکروفن، لیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی ۲۰۰۸، ص ۶۔
(۴) زاویہ نگاہ، لیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی ۲۰۰۸، ص ۶۔
(۵) مضامین نو، خلیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی ۲۰۰۸، ص۱۲۔
(۶) ایضاً، ص ۶۴۔
(۷) نوائے ظفر، خلیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی ۲۰۰۸، ص۳۶۔
(۸) مضامین نو، خلیل الرحمن اعظمی، این سی پی یو ایل، نئی دہلی ۲۰۰۸، ص۲۴۔
(۹) ایضاً، ص ۵۵۔
ایم، ایم، کے، ڈگری کالج، منگراواں، اعظم گڑھ، یوپی
Mob: 9452411642
Email: [email protected]