روز و شب تیرے ہیں یہ شام و سحر تیرے ہیں
نور و ظلمت بھی ترے، شمس و قمر تیرے ہیں
جھلملاتے سرِ گردوں یہ ستارے تیرے
تہہ میں دریا کی صدف، ان میں گہر تیرے ہیں
یہ زمینوں سے اُبلتا ہوا سونا تیرا
لہلہاتے ہوئے سب برگ و شجر تیرے ہیں
بیج سے شاخ تلک سب تری قدرت کی نمود
اور شاخوں پہ درختوں کی ثمر تیرے ہیں
بہتے دریاؤں کے ساحل کا محافظ تو ہے
بحر کی موجیں بھی تیری ہیں، بھنور تیرے ہیں
نغمۂ شوق کی سرمست صدائیں تیری
خوں بہاتے ہوئے یہ دیدۂ تر تیرے ہیں
وا ہیں درِ نعمت و بخشش کے تری سب کے لیے
بے ہنر تیرے ہیں، سب اہلِ ہنر تیرے ہیں
ہر فرض کو تری حکمت سے شفا ملتی ہے
سب دواؤں میں دعاؤں میں اثر تیرے ہیں
کب کسی بات سے واقف تھا زمانے میں رئیسؔ
اس کو بخشے ہوئے سب علم و خبر تیرے ہیں