بھیڑ

ستمبر 2022

اک ہجومِ بے شکلاں
پھر رہا ہے گلیوں میں
بھیڑ— گویا بستی میں گیدڑوں کی ٹولی ہے
بزدلوں کے ہونٹوں پر زہر زہر بولی ہے
ہر طرف ہواؤں میں خوں کی باس بہتی ہے
آگ اور دھواں لے کر موت ساتھ چلتی ہے
بھیڑ—گویا ہر چہرہ نفرتی درندہ ہے
روح مرچکی ہے اور صرف جسم زندہ ہے
خون ہے کہ رگ رگ میں زہر بن کے بہتا ہے
آنکھ میں ہے وحشی پن، منہ سے خوں ٹپکتا ہے
بھیڑ— گویا حاکم کی اندھ بھکت منڈلی ہے
جس طرف اشارہ ہو اس طرف کو چلتی ہے
بھیڑ بھی نہیں ہے یہ وحشیوں کا جتّھا ہے
بے ضمیر حاکم کا بس یہی سہارا ہے
نہ کہیں حکومت ہے نہ کوئی عدالت ہے
جھوٹ کی سیاست میں بک چکی صحافت ہے
چار سمت دہشت ہے، اجتماعی وحشت ہے
ہرطرف درندوں کی بے لگام آفت ہے
سرزمینِ ہندوستاں کیا تجھے ندامت ہے
کوئی چپ رہے بھی تو
کب تلک رہے گا چپ
خون ہے تو ابلے گا،
آنکھ ہے تو چھلکے گی
دل اگر ہے سینے میں ایک دن تو دھڑکے گا
ایک دن تو آئے گا صبر اور خموشی کے
پرسکون دریا میں کوئی موج اٹّھے گی
جس کی بے پناہی میں
بے ضمیر حاکم کا تخت ڈوب جائے گا

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ