کوئی پچھلے سو سال سے یعنی جب سے اردو اور ہندی کا جھگڑا شروع ہوا ہے، یہ سوال وقتاً فوقتاً ہمارے سامنے پیش کیا جاتا رہا ہے کہ ہم اپنا رسم الخط برقرار رکھیں یا لاطینی رسم الخط اختیار کر لیں۔ اس مسئلے پر ایک توعملی نقطہ نظر سے بحث ہوئی ہے اور دوسرے علمی اعتبار سے۔ مگر اپنا تعلق ٹھہرا ادب سے۔ چناں چہ ادب سے پیار بڑھانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میں عمل سے بھی بے بہرہ ہوں اور علم سے بھی۔ آج تک مجھ سے نہ تو ڈیل کار نیگی کی کتاب پڑھی گئی نہ برٹرنڈرسل کی— علم اور عمل سے محروم ہونے کے بعد مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ ایسے گمبھیر مسئلے پر مضمون لکھنے بیٹھ جاؤں— لیکن ادیب ان معاملات میں ہمیشہ غیر دیانت دار پائےگئے ہیں— خصوصاً ہمارے مشرقی شاعر۔
کھیت کی خبر نہ کھاد کی، کسی نے فرمائش کی کہ آم کی شان میں قصیدہ ہو جائے۔ آگا دیکھا نہ پیچھا، بس تشبیہ، استعارے، صنائع، بدائع، خیال آرائی، مبالغہ بازی اور ایسی ہی دوچار لغویات جمع کیں۔ محاکات نگاری کے فرض کو بالائے طاق رکھا اور قصیدہ تیار۔ یہ بھی نہ سوچا کہ مولانا حالی کیا کہیں گے۔ اس روایت نے اپنی عادت بھی بگاڑ رکھی ہے۔ رسم الخط کے مسئلے پر عالمانہ مضامین شائع ہوتے دیکھ کر جی بھر بھر آیا کہ لاؤ ہم بھی طبع آزمائی کر ڈالیں، اور کچھ نہ بن پڑے تو اس موضوع پر جو گپ زنی اپنے یہاں ہوتی رہی ہے اس کو جمع کریں، خیالی طوطا مینا اڑتے دیکھ کر تھوڑی دیر اپنا بھی دل بہلے گا، اور دوسروں کا بھی۔
کس چیز میں عملی فائدہ ہے اور کس چیز میں عملی نقصان، اس کی مجھے خود خبر نہیں اورو ں کو کیا بتاؤں گا۔ اور میری علمیت اس غضب کی ہے کہ مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ اقوام متحدہ کا صدر مقام نیویارک شہر کے اندر ہے یا باہر۔ چناں چہ نہیں بلکہ لہٰذا اس مضمون میں آپ کو نہ تو کوئی کام کی بات ملے گی اور نہ علمی دلائل۔ البتہ لطائف و ظرائف کثرت سے ہوں گے۔ ہنسنے ہنسانے کو جی چاہتا ہو تو یہ مضمون پڑھ لیجیے۔
جہاں تک اصلی مسئلے کا تعلق ہے، میں اس معاملے میں آپ کی کوئی رہ نمائی نہیں کرسکوں گا۔ قطعی فیصلوں کے بجائے مجھے تو لطائف و ظرائف پسند ہیں اور اس قدر کہ میں نے تو اپنی دل لگی کے لیے ابن عربی کی یہ بات پکڑ لی ہے— دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اچھا ہو رہا ہے۔ تو موجودہ رسم الخط چاہے رہے چاہے جائے، میں تو دونوں آموں کو میٹھا ہی کہوں گا۔ اس مضمون میں میرا مقصد تو بس اتنا ہے کہ رسم الخط کے بارے میں آپ کو چند لطیفے سناؤں جو پرانے ملاؤں نے گھڑے ہیں اور سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ کل جو ملا تھا وہ آج خلائی سفر کے زمانے میں ملادو پیازہ بن گیا ہے اور اس کے عقائد لطائف بیربل۔
ملا کے لطیفوں کا مزہ لینے تو خیر ہم بیٹھے ہی ہیں، لائیے پہلے ذرا عملی اور علمی دنیا کی بے چینی سے بھی لطف اندوز ہو لیں۔ لاطینی رسم الخط کی موافقت میں واحد دلیل یہ دی جاتی ہے کہ یہ مغرب کا رسم الخط ہے اور مغرب آج سب سے طاقتور، سب سے دولت مند اور سارے علم وعمل کا مالک ہے۔ اس دلیل کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ مغرب کی یہ عظمت لازوال ہے مگر سیدھی سی حقیقت یہ ہے کہ مغرب آج بھی وحدہ لا شریک لہ نہیں۔ اس کے تین حریف موجود ہیں۔ روس، چین اور جاپان۔ اور یہ تینوں اپنا اپنا رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔ اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ علمی اور عملی ترقی لاطینی رسم الخط کی بوتل میں بند نہیں بلکہ روس جو اپنا رسم الخط استعمال کرتا ہے، کم سے کم سائنس میں مغرب سے دوچار قدم آگے ہے۔ یہ علمی اورعملی ترقی تو ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے، آج یہاں تو کل وہاں۔ اب تو بے چارا مغرب بھی اپنے آپ کو لازوال نہیں سمجھتا۔ یہ پیشین گوئی تیس سال پہلے والیری نےکردی تھی کہ یورپ آہستہ آہستہ ایشیائی بر اعظم کا ایک کونا بن کے رہ جائے گا۔ اب تو یہ احساس مغرب میں عام ہو چلا ہے۔
”ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ” جیسے قدامت پسند اخبار نے حال ہی میں لکھا ہے کہ لوگوں کو ایزرا پاؤنڈ سے شکایت ہے کہ وہ چینی الفاظ، چینی رسم الخط میں لکھ کے ہمیں خواہ مخواہ الجھن میں ڈالتا ہے لیکن شاید اگلی صدی میں یہی شاعر سب سے زیادہ قابل قبول ہوگا۔ کیوں کہ ممکن ہے سو سال کے اندرمغرب چینی زبان بول رہا ہو۔ اگر مغرب والوں کا یہ اندیشہ درست نکلا اور اکیسویں صدی میں مغرب چینی بولنے لگا تو ہماری حیثیت کتنی دل چسپ ہو جائے گی۔ بیسویں صدی میں ہم لاطینی رسم الخط اختیار کریں۔ اکیسویں صدی میں چینی رسم الخط اور بائیسویں صدی میں افریقہ کا کوئی رسم الخط۔ چلیے یہ نقشہ کچھ ایسا برا بھی نہیں۔ اس کوٹھی کا اناج اس کوٹھی میں کرتے رہنے سے ہم علم اورعمل دونوں میں مصروف رہیں گے۔
لیکن رسم الخط کا معاملہ محض کپڑوں کاسا ہے کہ جب جی چاہا بدل ڈالے؟ ممکن ہے مغرب والوں کو رسم الخط صرف خارجی اور غیرمستقل چیز ہی نظر آتا ہو اور انھیں رسم الخط بدلنے میں نہ تو کوئی تکلیف ہو اور نہ کوئی نقصان پہنچے۔ دوسری روایتوں کے برخلاف عیسائیت کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں نہ تو تفصیلی فقہ ہے نہ مقدس زبان۔ عبادت کی زبان کے طور پرعیسوی دنیا میں لاطینی، یونانی، شامی اور دیگر زبانیں استعمال کی گئی ہیں۔ لیکن کوئی ایسی زبان نہیں جس میں ان کی روایت کے بنیادی صحیفے محفوظ ہوں۔ اس لیے عیسائیوں کے لیے ایک خاص زبان اور ایک خاص رسم الخط وہ اہمیت اور معنویت نہیں رکھتے جو ان چیزوں کو مشرق کی بڑی روایتوں میں حاصل ہے۔
مثلاً چینی روایت کی تو وحدت ہی رسم الخط کے سہارے قائم ہے اور اس روایت میں رسم الخط کی حیثیت بہت ہی مرکزی ہے۔ چینی روایت کا امتیاز یہ ہے کہ مابعد الطبعیاتی معارف کو صرف چندعالموں تک محدود کر دیا گیا تھا اور عام لوگوں کے لیے وہ اخلاقی اور سماجی اصول تھے جو اس مابعد الطبعیات سے اخذ کیے گئے تھے۔ اس کے دو نتیجے ہونے چاہئیں تھے۔ ایک تو یہ کہ عام لوگ مابعد الطبعیات کو بالکل ہی بھول جائیں اور دوسرے جن علاقوں میں یہ روایت پھیلے، ان میں یگانگت اور وحدت کا احساس برقرار نہ رہے۔ ان دونوں خطرات سے چینی روایت کو رسم الخط نے ہی بچائے رکھا ہے۔
پورے مشرق بعید میں سماجی اور تہذیبی وحدت کا احساس پیدا کرنے والی چیز ہے رسم الخط۔ دوسرے مابعد الطبعیات اور سماجی اخلاقیات کے تعلق کوعام لوگوں کے شعور میں بھی زندہ رکھنے کا فریضہ رسم الخط نے ہی سرانجام دیا ہے۔ کیوں کہ یہ رسم الخط تصویری ہے اور اس میں ہرعلامت بیک وقت حسیات، معقولات اور مابعد الطبعیات تینوں سے تعلق رکھتی ہے۔ گویا چینی روایت میں تو مابعد الطبعیات کی حفاظت اور نگہبانی ہی رسم الخط کے سپرد ہے۔ یہ ایک زندہ نمونہ ہے وحدت الوجود کا جوہر پڑھے لکھے چینی کے سامنے ہر وقت حاضر رہتا ہے۔ اس اعتبار سے چینی روایت میں رسم الخط عرفان حقیقت کا ایک وسیلہ ہے۔ جس طرح ہندو روایت میں بت ہیں۔ چینی رسم الخط بلا واسطہ ایک مابعد الطبعیاتی فریضے کا حامل ہے۔
مغرب والوں کے نزدیک رسم الخط کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آلو، مٹر کی خریداری کا حساب رکھنے میں آسانی رہتی ہے۔ رسم الخط کے مابعد الطبعیات فریضے کا تصور انھیں مذاق معلوم ہوگا، اور ان سے زیادہ ہمارے یہاں کے مغرب پرستوں کو کیوں کہ مرید پیر سے چار جوتے آگے رہنا چاہتا ہے۔
پھر مغرب والوں کے استعماری مفاد کا بھی تقاضا یہی رہا ہے کہ کسی طرح مشرق کے لوگ ان باتوں کو مذاق ہی سمجھتے رہیں۔ آج مغرب، ایشیا اور افریقہ کے جہاد آزادی سے بھی زیادہ اس بات سے خائف ہے کہ مشرق والے اپنے اداروں اور اپنے تصورات کو پھر سے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے دل میں اپنی اقدار کی عزت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خوف میں نے ایجاد نہیں کیا۔ ابھی ایک صاحب نے بی بی سی سے اقوام متحدہ کےایک اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو چیز مغرب کے مستقبل پر سیاست سے بھی زیادہ اثرانداز ہوگی، وہ یہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے لوگ بنیادی زندگی کی مشکلات کا حل بھی اپنے اپنے مذہب میں ڈھونڈنے لگے ہیں۔ اگر یہ ذہنیت ترقی کر گئی تو مغرب کو تہذیبی برتری کا جو احساس اور یقین حاصل ہے وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اگر آپ کو تصدیق منظور ہو تو بی بی سی کا رسالہ ”لسز” دیکھیے— 6 اکتوبر 1960ء صفحہ 549— اسی تہذیبی برتری کے تحفظ کی خاطر ہی تو مغربی حکومتوں کی طرف سے اسلامیات اور عربی زبان و ادب کے ”عالم” اور ماہر اور مستشرق اسلامی ملکوں میں بھیجے جاتے ہیں جو قرآن و حدیث سے یہ ثابت کر کے دکھاتے ہیں کہ اسلام کا تعلق کسی خاص رسم الخط سے نہیں اور مسلمانوں کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ لاطینی رسم الخط اختیارکرلیں۔
خیر یہ تو عملی اور علمی باتیں ہیں۔ ہم اس بکھیڑے میں کیوں پڑیں۔ ہم تو ایک کھیل کھیلنے بیٹھے ہیں اور آج کل مابعد الطبعیات ہی ایک چیز رہ گئی ہے جس سے آدمی کھیل سکتا ہے۔ باقی سب چیزیں علمی اور عملی بن گئی ہیں۔ مابعد الطبعیات سے کھیلنے میں ہم گناہ گارہوں گے تو زیادہ سے زیادہ خدا کے۔ خداغفور اور رحیم ہے، اس سے تو ہم اپنا گناہ بخشوا ہی لیں گے۔ انسان سے البتہ معافی ملنی مشکل ہے۔ تو خدا سے کیا ڈرنا، آئیے مابعد الطبعیاتی شطرنج کی بازی جم جائے۔
پہلے اس شطرنج کا بنیادی اصول سمجھ لیجیے۔ انسانی تاریخ کی عظیم ترین اور مکمل ترین روایتی تہذیبیںتین ہیں۔ چینی، ہندو اور اسلامی، ان کے علاوہ اگر کسی اورتہذیب نے تکمیل کا درجہ حاصل کیا تو ہمیں اس کا صحیح علم نہیں۔ یونانی، یہودی اور ازمنہ وسطی کی عیسوی تہذیبیں اپنی اپنی جگہ قابل قدر ہیں لیکن کسی نہ کسی اعتبار سے نامکمل ہیں۔ موجودہ مغرب کسی طرح روایتی تہذیب کے دائرے میں آتاہی نہیں کیوں کہ اس میں روایت کا وجود ہی نہیں بلکہ یہ بات بھی مشکوک ہے کہ جس معاشرے میں تہذیب نفس کا کوئی مرکزی اصول نہ ہو، ا سے تہذیب کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
بہر حال ان تینوں بڑی تہذیبوں میں طرح طرح کے اختلافات کے باوجود ایک چیز مشترک ہے۔ توحید کا نظریہ، یعنی مابعد الطبعیاتی عنصر جس پر ان تہذیبوں کی بنیاد قائم ہے۔ پھر ان تہذیبوں کی ایک لازمی خصوصیت یہ ہے کہ عقائد، عبادات، اخلاقیات اور رسمیں تو الگ الگ رہیں، دنیاوی زندگی کا بھی کوئی فعل یا قول اس مابعدالطبعیات سے آزاد نہیں ہوتا۔ اچھی سے اچھی اوربری سے بری سب چیزوں میں اس کا عکس اور ظہور ملتا ہے۔ بلکہ مادی چیزوں کو مابعد الطبعیاتی حقائق کی علامت بناکر ان سے مابعد الطبعیات کی حفاظت کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ مادی چیزیں ایک وسیلہ بن جاتی ہیں، جن کے ذریعے حقائق عام لوگوں کے شعور اور طرز احساس میں رچ بس جاتے ہیں۔ چناں چہ ان تہذیبوں میں کوئی عنصر بھی اتفاقی یا حادثاتی امر نہیں ہوتا، بلکہ لازمی حیثیت رکھتا ہے اور اگر کسی عنصر کو خارج کر دیا جائے تو اس کی اضافی اہمیت کے حقدار تہذیب کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
یہی حال رسم الخط کا بھی ہے۔ یہ تو ہم دیکھ چکےہیں کہ چینی تہذیب کی بقا اور استحکام کس حد تک رسم الخط پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی رسم الخط پر چینی رسم الخط کی برتری کا اظہار ہی نہیں بلکہ اعلان بالجبر مغرب میں گینوتوسا، ایزرا پاؤنڈ اور آئن سٹائن جیسے لوگ کر چکے ہیں۔ اسلامی روایت میں رسم الخط کو اتنی مرکزی اہمیت تو حاصل نہیں، مگر یہاں بھی رسم الخط ہمارے بنیادی عقائد کے ساتھ مربوط اور منضبط ہے۔ اور ایک ایک حرف کیا معنی، لفظوں اور حروف کی شکلوں کی بھی مابعد الطبعیاتی اورعلامتی معنویت مقرر ہے۔ یہ رموز تفصیل کے ساتھ حضرت عبدالکریم جیلی نے ”الکہف و الرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم” میں لکھے ہیں۔ ان رموز کو سمجھنے اور سمجھانے کا ذمہ نہیں لیتا۔ میں تو بس اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ نمونے کے طور پر چند جملے نقل کردوں۔ مثلاً،
”نقطہ ب سے کہتا ہے کہ اے حرف میں تیری اصل ہوں کیوں کہ تیری ترکیب مجھ سے ہے بلکہ تو اپنی ترکیب میں میری اصل ہے۔ اس لئےکہ تیرا ہر جز نقطہ ہے۔ پس توکل ہے اور میں جز ہوں اور کل اصل ہے اور جز فرع۔ بلکہ میں حقیقت میں اصل ہوں۔ اس لیے کہ تیری ترکیب عین میری ترکیب ہے۔”
”ب الف مبسوطہ ہے اور ح الف معوجۃ الطرفین ہے اور د الف منحنی الوسط ہے اور الف بوجہ ہر حرف کے اس سے مرکب ہونے کے مقام نقطہ میں ہے اور ہر حرف نقطے سے مرکب ہے۔ پس نقطہ ہر حرف کے لیے مثل جو ہر بسیط کے ہے اور حرف مثل جسم مرکب کے ہے۔ پس الف نہ قائم ہوا بحسمہ بجائے نقطے کے— اسی طرح حقیقت محمدیہ ہے کہ تمام عالم اس سے پیدا کیا گیا ہے۔”
”بعض حروف ایسے ہیں جن کا نقطہ اوپرہوتا ہے اوروہ اس کے نیچے ہوتے ہیں اور یہ مقام مارایت شیئا الاورایت اللہ قبلہ کا ہے اور بعض حروف ایسے ہیں کہ جن کا نقطہ نیچے ہوتا ہے اوروہ اس کے اوپرہوتے ہیں۔ یہ مقام مارایت شیئا الاورایت اللہ بعدہ کاہے۔ بعض حروف ایسے ہیں جن کانقطہ ان کے وسط میں ہے— یہ محل مارایت شیئا الاورایت اللہ فیہ کا ہے۔ ”
اگر میں نے اور اقتباس نقل کیے تو ہماری شطرنج بازی بہت مشکل چیز بن جائے گی۔ اس کے علاوہ میں لافورگ اور لوتریاموں کا پڑھنے والا ہو کے بھی مولانا حالی کی روح سے بہت ڈرتا ہوں۔ اگر میں نے دو چارجملے اور ایسے نقل کیے تو آپ کہیں گے کہ یہ تو نری خیال آرائی اور مبالغہ بازی ہے۔ اس میں خلوص اور توازن کا فقدان ہے۔ یہ تو اس زمانے کی باتیں ہیں جب لوگ عمل اور تسخیر کائنات کے فریضے سے غافل تھے اور ان فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرتے تھے اور یہی اسباب زوال امت ہیں۔ دوسرا اعتراض آپ یہ کریں گے کہ ایسی خیال آرائی تو لاطینی رسم الخط کے متعلق بھی ہو سکتی ہے، اس کا رسم الخط سے کوئی لازمی اور اندرونی تعلق نہیں۔ چلئے میں مان گیا، اس اعتراض کا جواب دینے کے بجائے میں آپ کو رسم الخط کے اندر ہی لیے چلتا ہوں۔
عبرانی اور عربی زبانوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ الفاظ کے معنی اور مطلب کا تعین ابجدی اعداد کے اعتبار سے بھی ہوتا ہے بلکہ معارف اور حقائق کے معاملے میں تو بعض دفعہ صرف اسی طرح ہوتا ہے۔ چناں چہ مغرب والوں نے لسانیات کے جو اصول گھڑے ہیں وہ یہاں آکے بالکل بیکار ہو جاتے ہیں— ابجدی حساب صرف پیدائش اور موت کی تاریخیں نکالنے کے ہی کام میں نہیں آتا بلکہ اس میں ہماری روایت کے بنیادی عقائد محفوظ ہیں۔ اس زمین میں تو دفینہ گڑا ہوا ہے۔ میں تو اس علم کے معاملے میں بھی کورا ہوں۔ البتہ دو ایک سنی سنائی باتیں عرض کرتا ہوں۔ مثلاً تصوف کے بارے مستشرقین اور خود ہم لوگ بھی خیال آرائی کرتے پھرتے ہیں کہ اس کی تعریف کیا ہے، یہ لفظ کہاں سے نکلا ہے اور اس کا رمز چھپا ہوا ہے ابجدی حساب میں۔ لفظ ”صوفی” کے اتنے ہی اعداد ہوتے ہیں جتنے ”الحکمۃ والالھیہ” کے۔ یہی تصوف ہے۔ ہمارے یہاں اصطلاحات کی تعریف اس طرح بیان کی جاتی ہے۔ ان باتوں کومعمہ بنانے کی مصلحت یہ ہے کہ جن لوگوں میں معارف کی استعداد نہیں وہ انھیں کھیل نہ بنالیں۔ جیسے میں اس وقت بنا رہا ہوں۔
دوسری مصلحت یہ ہے کہ حقائق کو محفوظ رکھنے کے لیے انھیں طرح طرح کی ٹھوس شکلیں دی جاتی ہیں۔ چناں چہ اب ایک مثال دیکھیے مابعد الطبعیاتی رموز کو ابجدی حساب سے بیان کرنے کی۔ حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ نے آدم کو اپنی شکل پر بنایا۔ ابجد کی رو سے جتنے عدد اللہ کے ہوتے ہیں اتنے ہی ”آدم و حوا” کے ہیں۔ پرانے لوگ کہتے تھے کہ یہ ساری باتیں اللہ کی طرف سے ہیں لیکن شاید آپ اس ابجدی تطبیق کو مشرقی ذہن کی نازک خیالی اور قوت ایجاد کا کرشمہ سمجھیں گے۔ لہٰذا اب ایک ایسی مثال لیجیے جس میں قوت ایجاد سرے سے غائب ہو۔
اسم اور فعل میں تو کوئی نہ کوئی واضح معنی ہوتے ہیں جن سے خیال آفرینی کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک معمولی حرف اتصال میں تو کوئی اور لفظ ساتھ لگائے بغیر نازک خیالی دکھانے کا موقع نہیں ہوتا۔ مگر یہاں تو حرف اتصال بھی مابعد الطبعیات کے دائرے سے باہر نہیں۔ عربی میں ”و” کے معنی ہیں ”اور” اس کے عدد ہوتے ہیں چھ۔ مشرقی علم الاعداد کے حساب سے طاق اعداد عالم لاہوت پر دلالت کرتے ہیں یعنی خدا اور روح سے متعلق ہیں اور جفت اعداد عالم ناسوت یعنی مخلوقات پر۔ چناں چہ اصولاً تو چھ کا عدد کائنات سے متعلق ہونا چاہیے تھا مگراسے مانا گیا ہے عالم لاہوت کی علامت، کیوں کہ یہ عدد 2 اور 3 کو ضرب دینے سے بنتا ہے۔ جن میں سے ایک عدد عالم ناسوت کا ہے اور دوسرا عالم لاہوت کا۔ ان دونوں کا حاصل صرف 6 علامت بن گیا لاہوت اورناسوت کے تعلق اور اتصال کی۔ اس عدد کے مقابل حرف ”و” ہے، چناں چہ یہی حرف عربی گرامر میں حرف اتصال کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
یہ ابجدی حساب ہے تو واقعی جھنجٹ، اور خلائی سفر کے زمانے میں باعمل انسانوں کو اتنی مہلت کہاں کہ ایسے بکھیڑوں میں پڑیں۔ مگر ان مثالوں سے یہ تو پتہ چل گیا ہوگا کہ ہمارے پرانے علوم کا بہت بڑا حصہ عربی رسم الخط میں بند ہے۔ جب ہم اپنا رسم الخط بدلیں گے تو یہ علوم بھی فی امان اللہ کہہ کر چلتے بنیں گے۔ لیکن واقعی ہائیڈروجن بم کی موجودگی میں ان علوم کی ایسی ضرورت بھی کیا ہے۔
ہمارے علوم کے لیے ابجدی حساب سہی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری مقدس زبان توعربی ہے، عربی میں ابجدی حساب قائم رہے گا اور ہمارے علوم بھی زندہ رہیں گے۔ اردو خالص دنیاوی چیز ہے اور یہاں رسم الخط کو تقدیس کا درجہ حاصل نہیں۔ لہٰذا اب یہ سمجھنا لازمی ہو گیا کہ عربی رسم الخط کا اسلام اور اسلامی تہذیب سے کیا تعلق ہے اور یہ رسم الخط مسلمانوں کے بنیادی عقائد اور نظام حیات اور طرز احساس کی کہاں تک نمائندگی کرتا ہے۔
عربی رسم الخط کا سب سے نمایاں فرق تو یہی ہے کہ یہاں دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھا جاتا ہے۔ سنسکرت میں بائیں طرف سے دائیں طرف کو چلتے ہیں۔ چینی میں پہلے اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں اور پھر بائیں طرف سے دائیں طرف۔ کیا یہ فرق محض اتفاق یا عادت کا نتیجہ ہے؟
ہم لوگوں نے عام طور سے یہ بات نظرانداز کر رکھی ہے کہ ہمارے رسم الخط کا رخ بھی وہی ہے جو طواف کعبہ کا رخ ہے۔ طواف کرتے ہوئے خارجی مرکز یعنی کعبے کو بائیں ہاتھ کی طرف رکھتے ہیں اور دائیں سے بائیں کو چلتے ہیں۔ ہندو اپنے طواف میں مرکز کو دائیں ہاتھ رکھتے ہیں، اور بائیں سے دائیں کو چلتے ہیں، جیسے سنسکرت رسم الخط میں ہوتا ہے۔ طواف شروع کرتے ہوئے ہندو پہلے بایاں پیر آگے بڑھاتے ہیں اور مسلمان دایاں پیر۔ یعنی طواف کی جو رسم چند حاجی سال میں ایک دفعہ ادا کرتے ہیں وہ ہر پڑھا لکھا مسلمان رسم الخط کے ذریعے ہر روز ادا کرتا ہے۔ اگر طواف کی کوئی دینی اور روحانی معنویت ہے تو یہ فیض ہمیں رسم الخط ہر روز پہنچاتا ہے اور حقیقت کعبہ ہر وقت ہماری نظروں کے سامنے رہتی ہے۔
رسم الخط اور طواف کعبہ کا رخ تو خیر ایک ہوا لیکن طواف کا طریقہ بھی کوئی بے خیالی میں مقرر نہیں ہوا۔ اس کا تعلق سمتوں کے تعین سے ہے۔ دنیا میں سمتیں دو طریقوں سے متعین ہوتی ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ شمال کی طرف منہ کریں تو پیچھے جنوب ہوگا۔ دائیں ہاتھ کی طرف مشرق اور بائیں ہاتھ کی طرف مغرب۔ اسے قطبی تعین کہتے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جنوب کی طرف منہ کریں تو پیچھے شمال ہوگا۔ دائیں طرف مغرب اور بائیں طرف مشرق۔ یہ شمسی تعین ہے۔ لیکن دونوں طریقوں میں فضیلت مشرق کو ہی حاصل ہے کیوں کہ مشرق نور سے وابستہ ہے اور مغرب تاریکی سے۔ قطبی تعین میں دایاں ہاتھ مشرق کی طرف ہوتا ہے اس لیے دائیں ہاتھ کو برتر سمجھا جاتا ہے۔ شمسی تعین میں مشرق کی طرف بایاں ہاتھ ہوتا ہے، اس لیے برتری بائیں ہاتھ کو ملتی ہے جیسے چینیوں کے یہاں ہر اچھا کام بائیں ہاتھ سے ہوتا ہے۔ قطبی طریقہ اسلامی روایت میں رائج اور شمسی طریقہ ہندو اور چینی روایت میں۔
کہتے ہیں کہ انسان کا سب سے قدیمی طریقہ قطبی تھا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زمانے میں انسان کے لیے معرفت حاصل کرنا بھی آسان تھا۔ لیکن جیسے جیسے انسان مخلوقات میں پھنستا گیا اور اصل الاصول سے دور ہوتا گیا، اس کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ کائنات اور محسوسات کے ذریعے حقیقت تک پہنچے۔ جب معرفت کے طریقے بدلے تو سمتوں کا تعین بھی بدل گیا اور شمسی طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس شمسی تعین کے علامتی معنی یہ ہیں کہ پہلے کائنات کا عرفان حاصل کرو، پھر اس کے ذریعے حقیقت تک پہنچوگے۔ یہ کیفیت چوں کہ تنزل کی تھی، اس لیے ہر پرانی تہذیب میں وقتاً فوقتاً یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ پرانی حالت پھر واپس آجائے اور اصل الاصول سے براہ راست تعلق دوبارہ قائم ہو۔ ان کوششوں کے ضمن میں قطبی تعین بھی دوبارہ اختیار کیا گیا۔
مثلاً چین میں گیارہویں صدی قبل مسیح کے قریب یہی تجدیدی تحریک چلی اور دائیں ہاتھ کو فوقیت دی گئی۔ مگر لوگ پھر شمسی تعین پہ آ رہے۔ ہندوؤں کے یہاں شمسی تعین تھوڑے سےفرق کے ساتھ ہے کیوں کہ وہ منہ مشرق کی طرف کرتے ہیں۔ مگر ان کے یہاں ابھی ابتدا میں قطبی طریقہ ہی رائج تھا۔ یہ اسی سے ظاہر ہے کہ ”اتر” کے معنی ہیں سب سے اونچا نقطہ۔ اسی طرح چینیوں کی ایک مقدس کتاب کہتی ہے کہ ”آسمانی راستہ” دائیں ہاتھ کو ترجیح دیتا ہے اور”زمینی راستہ” بائیں ہاتھ کو۔ انسانوں نے ”زمینی راستہ” اس لیے اختیار کیا کہ انھوں نے ”آسمانی راستہ” کھو دیا تھا۔ غرض چینی اور ہندو روایتیں بھی اپنے شمسی تعین کے باوجود قطبی تعین کے قدیم اور افضل ہونے کی قائل ہیں— اور قطبی تعین کے ساتھ دائیں ہاتھ کی برتری وابستہ ہے۔
میں بتا چکا ہوں کہ ہر تہذیب میں قطبی تعین کو زندہ کرنے کی ناکام کوشش ہو چکی ہے۔ اسلام نے اسی تعین کو کام یابی کے ساتھ زندہ کیا ہے۔ اسلام کا دعوی بھی تو یہی ہے کہ اسلام کوئی نیا دین نہیں بلکہ دین ابراہیمی کا احیا ہے۔ بلکہ بعض ہندوعارف بھی یہ کہتے ہیں کہ موجودہ یگ میں سناتن دھرم کی آخری شکل اسلام ہے۔
اب اس احیا اور تجدید کا مطلب اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ میں یہ باتیں شیخی بگھارنے کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں اور نہ میرا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ میرا موضوع تو صرف اتنا ہے کہ اسلام کے امتیازی اوصاف کیا ہیں اور ان کا رسم الخط سے کیا تعلق ہے۔ جہاں تک بنیادی مابعد الطبعیات کا تعلق ہے وہ تو چینی ہندو اور اسلامی تینوں روایتوں میں مشترک ہے اور وحدت الوجود کا تصور بھی تینوں جگہ یکساں ہے۔ اگر فرق ہے تو نقطہ نظر میں اور معرفت حاصل کرنے کے طریقوں میں اور ان حقائق کے اظہار کے اسالیب میں۔ اصل الاصول کو تو ہندو اور چینی بھی اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح مسلمان۔ مگر چینی لوگ تو بالعموم اور ہندوؤں میں سامکھیہ درشن سے متعلق لوگ کائناتی نقطہ نظر اختیار کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ انسان کو ابتدا ان چیزوں سے کرنی چاہیے جو فوراً گرفت میں آسکیں۔ یعنی مخلوقات اور اس کے بعد بتدریج اصل الاصول کی طرف بڑھنا چاہیے۔ اسی لیے یہ لوگ اپنا منہ سورج کی طرف کر کے سمتوں کا تعین کرتے ہیں اور ان کا رسم الخط بائیں جانب سے دائیں جانب کو چلتا ہے۔ اس کے برخلاف مسلمان ایک دم سے لاالہ الا اللہ کہتے ہیں۔ یعنی اسلام نے مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر اختیار کیا ہے، اور اصل الاصول سے براہ راست تعلق قائم کرنے پرزور دیاہے۔
کائناتی نقطہ نظر اسلام میں بھی موجود ہے اور مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر چینی اور ہندو روایتوں میں بھی۔ فرق صرف اصرار و تاکید کا ہے۔ ہندو اور چینی نیچے سے اوپرکی طرف جاتے ہیں، مسلمان اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں اور تینوں روایتوں کے نزدیک انسان کا اولین اور قدیم ترین طریقہ بھی یہی تھا۔ اسلام نے اسی کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ اس مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر پہ زور دینے کی وجہ سے اسلام نے قطبی تعین اختیار کیا، دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی، طواف کعبہ میں حرکت کی سمت دائیں سے بائیں کو مقرر کی اور رسم الخط بھی وہ لیا جو دائیں سے بائیں کو چلتا ہے۔ کیوں کہ یہ سب چیزیں اصل الاصول سے قربت پر دلالت کرتی ہیں۔ چناں چہ ہمارا رسم الخط تو ملت ابراہیم حنیف کا پرچم ہے بلکہ یہ رسم الخط تو موذن ہے جو ہر وقت لاالہ الا اللہ پکارتا رہتا ہے۔ غازی ہے جو اللہ اکبر کے نعروں سے تعینات کی فوجوں کوغارت کر کے واحدیت اور احدیت کا اقتدار قائم کرتا ہے۔
چناں چہ ہمارا رسم الخط سب سے پہلے تو کلمہ توحید کی نشانی ٹھہرا اور اس سے زیادہ بنیادی چیز اسلام میں کوئی اورہو نہیں سکتی۔ لیکن ابھی دیکھتے جائیے، اس بھان متی کے پٹارے میں سے بہت کچھ نکلے گا۔ چوں کہ ہم ساتھ ساتھ چینی اور سنسکرت رسم الخط پر بھی نظر ڈالیں گے۔ اس لیے چینیوں کی دو ایک اصطلاحیں سمجھ لیجیے۔ ان سے بات آسان اور مختصر بھی ہو جائے گی۔ چینی مابعد الطبعیات میں اصل الاصول کے پہلے دو تعینات ہیں۔ آسمان اور زمین۔ ہندوؤں کے یہاں انھیں کو پرش اورپراکرتی کہتے ہیں۔ آپ انھیں ماہیت اور مادہ سمجھیے (مگریہاں مادے کے وہ معنی نہیں جو مغرب نے اس لفظ کو دیے ہیں) ان دواصولوں کے ملنے سے ظہور واقع ہوا، یا کائنات وجود میں آئی۔ آسمان فاعلی اصول ہے جوخود تو حرکت نہیں کرتا مگر دوسری چیزوں کو حرکت میں لاتا ہے۔ زمین مفعولی اصول ہے جو آسمان سے آنے والے اثر کو قبول کرتا ہے اور اس طرح چیزوں کو وجود میں لاتا ہے۔ آسمان میں تذکیر ہے اور زمین میں تانیث۔ ان دونوں اصولوں کی مشترکہ علامت یہ ہے:
عمودی خط آسمان ہے، افقی خط زمین۔ ہمارے یہاں ‘ا’ اور ‘ب’ کے علامتی معنی بھی یہی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چینی رسم الخط پہلے تو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اور پھر بائیں سے دائیں طرف چلتا ہے۔ اس طرح چینی رسم الخط میں یہ دونوں لکیریں موجود ہیں۔ چناں چہ یہ رسم الخط ظہور و تخلیق کے ان دو اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ دوسرے اعتبار سے ایک اور معنی پیدا ہوتے ہیں۔ عمودی خط اصل الاصول، اس کے تنزلات اور تعینات کی طرف اشارہ کرتا ہے یا مراتب وجود کی علامت ہے۔ افقی خط مخلوقات کا نمائندہ اور دونوں مل کر انسان اور اس کی کائنات کی قائم مقامی کرتے ہیں۔ غرض رسم الخط اصل الاصول، مخلوقات اور انسان کے باہمی رشتے کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے لے آتا ہے۔ عربی اور سنسکرت رسم الخط میں عمودی خط نہیں ہوتا، صرف افقی خط ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ اصل الاصول تومخلوقات کے اندرموجود ہی ہے۔ اسے الگ سے دکھانے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
آسمان اور زمین تو ظہور کے دو اصول ہوئے۔ اب مخلوقات کو سمجھنے کے لیے چینیوں نے ان سے دو اصول اخذ کیے ہیں جنھیں یانگ اور ین کہتے ہیں۔ یانگ باطن ہے، ین ظاہر۔ یانگ نور ہے، ین ظلمت۔ یانگ فاعل، مثبت اور مذکر ہے۔ ین مفعول، منفی اورمونث۔ یانگ بالفعل ہے، ین بالقوہ۔ یانگ کا تعلق عقل کل سے ہے اور ین کا حسیات سے۔ لیکن یہ دونوں اصول ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور الگ الگ نہیں رہ سکتے۔ ہر چیز میں یانگ بھی ہوتا ہے اورین بھی۔ البتہ کسی چیزمیں یانگ زیادہ ہوتا ہے اورکسی میں ین۔ اسی زیادتی کے اعتبار سے چیزوں کوین اور یانگ میں تقسیم کیا جاتا ہے (آسانی کی خاطر میں نے اصطلاحیں چینیوں کی لے لی ہیں۔ ورنہ ان دو اصولوں کا تصور ہر روایت میں موجود ہے۔ ہندوؤں کے یہاں برہمانڈ اور یونانیوں کے یہاں ہر میز کے عصا پر دو سانپ اور مسلمان کے یہاں جنت کی دو نہریں انھیں اصولوں کی نمائندگی کرتی ہیں)
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ اگررسم الخط دائیں سے بائیں کو چلے تو یہ قطبی تعین ہوگا اور بائیں سے دائیں کو چلے تو شمسی۔ قطبی تعین میں آدمی کا منہ شمال کی طرف ہوتا ہے اور شمال ین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اصل الاصول کے مقابلے میں تو اپنے آپ کو ین سمجھتا ہے اور کائنات کے مقابلے میں یانگ۔ اسی لیے تو و ہ اپنا تکملہ ڈھونڈنے کے لیے ین یعنی شمال کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ شمسی تعین میں آدمی جنوب یا مشرق کی طر ف منہ کرتا ہے جو یانگ ہیں۔ یعنی انسان کائنات کے مقابلے میں بھی اپنے آپ کو ین تصور کرتا ہے۔ اس طرح یہ دو تعین انسان اور کائنات کے باہمی رشتے کے متعلق دو مختلف تصورات کے حامل ہیں۔ شمسی تعین اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ کائنات کے مقابلے میں انسان کی حیثیت مفعولی، منفی اور مونث ہے۔ قطبی تعین کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کے مقابلے میں انسان کی حیثیت فاعلی، مثبت اور مذکر ہے۔
اس قطبی تعین کی رو سے ہمارے رسم الخط کا رخ مقرر ہوا ہے۔ چناں چہ یہ رسم الخط کائنات کے بارے میں ہمارے تصور کی بھی نشانی ہے۔ یوں ہونے کو توعبرانی رسم الخط کا بھی رخ یہی ہے۔ مگر یہودیوں نے سمتوں کی تذکیر و تانیث میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ ان کے یہاں قطبی تعین کی معنویت پوری طرح محفوظ نہیں رہی۔ حضرت عبد الکریم جیلی کہتے ہیں کہ اول تو خدا نے یہودیوں کو پورا علم نہیں دیا اور جتنا علم انھیں ملا ہے اسے انھوں نے مسخ کر دیا، یہی وجہ ہے کہ یہودیوں میں کوئی کامل نہیں۔
عربی رسم الخط کے رخ سے پتہ چلتا ہےکہ مسلمان یانگ کو پہلے رکھتے ہیں اور سنسکرت اور چینی رسم الخط کا مفہوم یہ ہے کہ ین کو پہلے لیا گیا۔ یانگ کی فوقیت تو خیر تینوں جگہ مسلم ہے لیکن یانگ کو پہلے رکھنا مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر کی نشانی ہے جو اسلام نے اختیارکیا ہے اور ین کو پہلے رکھنا کائناتی نقطہ نظر کی دلیل ہے جو چینیوں نے اور ہندوؤں میں سامکھیہ درشن نے اختیار کیا ہے۔ یہ سلوک اور معرفت حاصل کرنے کے دو مختلف طریقے ہیں۔ آخر میں جاکے تو خیر سب راستے ایک ہو جاتے ہیں لیکن کائناتی نقطہ نظر کہتا ہے کہ اصل الاصول کی معرفت حاصل کرنے کے لیے پہلے کائنات کو دیکھو، محسوسات سے کام لو، ظاہر سے باطن کی طرف چلو۔ مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر کہتا ہے کہ پوری توجہ اصل الاصول پر ہی مرکوز رکھو، عقل کلی کی رہ نمائی حاصل کرنے کی کوشش کرو، باطن کے ذریعے ظاہر کو سمجھو۔ ویسے تو یہ دونوں طریقے تینوں جگہ بیک وقت موجود ہیں۔ فرق صرف اس بات کا ہے کہ زور کس طریقے پر دیا گیا۔ مسلمانوں کا قطبی تعین بتاتا ہے کہ یہاں زور مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر پہ ہے۔ لہٰذا ہمارا رسم الخط سلوک کے ایک خاص طریقے کی نشانی بھی بن جاتی ہے۔
پھرچونکہ انسان کامل کا درجہ سلوک کی یہ راہ طے کرنے سے ملتا ہے، اس لیے یہ رسم الخط انسان کامل کی بھی علامت ہے۔ ایک بات اس سے بھی آگے نکلتی ہے۔ انسان کامل کے کئی مفہوم ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کامل تو صرف آں حضرت ہیں۔ اس لیے یہ رسم الخط حقیقت محمدیہ کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ کیوں کہ قطبی تعین کی معنویت جس اکملیت اورجامعیت کے ساتھ آپ کو حاصل ہوئی اس طرح کسی اور کو نہیں ہو سکتی۔
قطبی اور شمسی تعین سے جو مختلف مطالب پیدا ہوتے ہیں وہ میں پیش کر چکا ہوں۔ اس بیان سے آپ کو سمتوں کے تعین کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو گیا ہوگا۔ کسی قوم یا تہذیب کی روحانی اور ذہنی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے قطبی تعین اختیار کیا ہے یا شمسی۔ کیوں کہ سمتوں کے تعین ہی سے پتہ چلتا ہے کہ اس تہذیب نے اصل الاصول اور کائنات کے درمیان انسان کو کیا جگہ دی ہے اور انسان کی کیا حیثیت رکھی ہے۔
کسی تہذیب نے انسان کی جو حیثیت مقرر کی ہوگی، اسی کے حساب سے مختلف تہذیبی مظاہر مثلاً ادب، فنون، لباس، آداب و اطوار وغیرہ صورت پذیر ہوں گے۔ اگر اس تہذیب کے نمائندوں نے اپنی روح برقرار رکھی ہے اور اپنے آپ کو مسخ نہیں کیا تو آپ اس کا رسم الخط دیکھ کر ہی بہت کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے تہذیبی ماہر کس قسم کے ہوں گے۔ آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ اگر رسم الخط دائیں سے بائیں کو چلے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ قطبی تعین، اور قطبی تعین سے مراد ہے مابعد الطبعیاتی نقطہ نظر، ظاہر کے بجائے باطن پر زور، مخلوقات کے بجائے اصل الاصول پر توجہ مرکوز کرنا، حسیات پر عقل کلی کو ترجیح دینا، نورانیت، فاصلیت اور مردانیت۔
کیا یہ وہی عناصر نہیں ہیں جو مختلف لوگوں نے کبھی تعریف کے لیے اور کبھی تنقیص کےلیےاسلامی ادب، فن، تعمیر، نقش گری، معاشرت اور فی الجملہ پوری اسلامی تہذیب میں دیکھے ہیں؟ یہ چیزیں اچھی ہیں یا بری، اس سے مجھے کوئی مطلب نہیں اور نہ اسلامی تہذیب کے متعلق تفصیلی بحث کرنے کا یہاں موقع ہے۔ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ عموما ًانہیں چیزوں کو اسلامی تہذیب کے بنیادی عناصر سمجھا گیا ہے اور ان تمام تہذیبی عناصر کی ایک نہایت ہی جامع اور نہایت ہی مختصر علامت ہے ہمارا رسم الخط۔
لیجیے میں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ یہاں سے وہاں تک مضمون لکھ گیا اور کام کی ایک بات نہیں کہی اور نہ افادی یا عملی پہلو کہیں آنے دیا۔ بارے آموں کا بیان ہو گیا۔
لیکن جس چیز کو حقیقی معنوں میں (ٹی ایس ایلیٹ کے معنوں میں نہیں) روایت کہتے ہیں وہ بڑی ہنسوڑی ہے۔ بے ہنگم ہے۔ بے ہنگم بات میں معنی ڈال دیتی ہے۔ میرے ذہن میں ایک مصرع آیا، میں نے اسے عنوان کی جگہ رکھ دیا۔ بہر حال عنوان کے ذریعے رسم الخط اور آم ایک دوسرے کے پاس آبیٹھے۔ آم سرزمین پاکستان و ہند کا خاص پھل ہے۔ یہ بے جوڑ بات ہے کیوں کہ یہاں تو ذکر ہونا چاہیے تھا کھجور کا، جو عرب کا خاص پھل ہے، جہاں سے اسلام شروع ہوا اور میں اسلام ہی کے بارے میں مضمون لکھ رہا ہوں۔ لیکن حضرت مجدد الف ثانی پاکستان و ہند کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سرزمین کا خمیر یثرب اور بطحا کی مٹی سے ہے۔ اگر یہ خیال آرائی نہیں بلکہ ٹھیک بات ہے تو آم اور کھجور ایک چیز ہوئے اور کھجور کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اپنی پھوپھی یعنی درخت خرما کی تعظیم کرو، کیوں کہ وہ آدم کی بقیہ مٹی سے پیدا کی گئی ہے۔ اگر آم اور کھجور ایک چیز ہیں تو سرزمین پاکستان و ہند کے اعتبار سے آم کو بھی وہی جامعیت اورعدلیت حاصل ہوئی جو کھجورمیں مجدد الف ثانی نے بتائی ہے۔ لہذا آم کھائیے۔
مگر آم کھانے کا طریقہ مجدد الف ثانی نے بہت ہی سخت مقرر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
”اس فائدے کی حقیقت اس وقت میسر ہوتی ہے جب اس کا کھانے والا صورت سے گزر کر حقیقت تک جا پہنچا ہو اور ظاہر سے باطن تک پہنچ گیا ہو تاکہ غذا کا ظاہر اس کے ظاہر کو مدد دے اورغذا کا باطن اس کے باطن کو مکمل کرے، ورنہ صرف ظاہری امداد پر ہی موقوف ہے اور اس کا کھانے والا عین قصور میں ہے۔”
یہ مضمون پڑھ کر بعض قارئین کو ایک خاص ”علمی” بحث میں ”مذہب” کی بے جا اور غیر ضروری مداخلت گراں گزری، کیوں کہ ان کے نزدیک مغرب میں ایسا نہیں ہوتا۔ مگر دور جدید کے آغاز تک مغرب بھی اس انداز نظر سے اس قدر بے گانہ نہیں تھا جتنا سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً 1613ء میں کلود دیورے (Claude Duret)اپنی کتاب Tresor de I histories des langues میں لکھتا ہے کہ یہودی، مصری، عرب، ایرانی وغیرہ اپنی تحریر میں دائیں طرف سے بائیں طرف چلتے ہیں اور اس طرح پہلے آسمان کی یومیہ گردش اور دور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ارسطو کے نزدیک یہ حرکت کی کامل ترین شکل ہے کیوں کہ اس کا رخ وحد ت کی جانب ہے۔ یونانی، رومی اور یورپ کی ساری قومیں بائیں طرف سے دائیں طرف چلتی ہیں۔ یہ دوسرے آسمان کی گردش ہے جو سات سیاروں کا مقام ہے۔ چینی اور جاپانی وغیرہ لکھنے میں اوپر سے نیچےکی طرف آتے ہیں۔ یہ ”نظام فطرت” کے مطابق ہے جس نے انسان کا سر اوپر رکھا ہے اور پیر نیچے۔ میکسیکو کے لوگ تحریر میں یا تو نیچے سے اوپر کی طرف چلتے ہیں یا چکر دار لکیریں بناتے ہیں جیسے بارہ برجوں میں سورج کی سالانہ گردش۔ غرض لکھنے کے یہ پانچ طریقے اپنے اپنے انداز سے زمین کی وضع کے رموز، صلیب کی شکل اور زمین و آسمان کی وحدت کا اظہار کرتے ہیں۔
یہاں یہ بتا دینا غیرضروری نہ ہوگا کہ یہ اقتباس مقبول فرانسیسی فلسفی مشل فوکو (Michel Foucault) کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے۔ اور یہ فرق بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ میں نے مضمون صوفیہ کے نقطہ نظر سے لکھا ہے جو خالص مابعد الطبعیاتی ہے۔ کلود دیورے کا نقطہ نظر کائناتی ہے۔ دیورے نے تو صلیب کا ذکرعیسائی ہونے کے اعتبار سے کیا ہے۔ صوفیہ کے نزدیک صلیب علامت ہے کائنات کی۔
(مشمولہ: مجموعہ محمد حسن عسکری)