مخمورؔ سعیدی کی شاعری ایک حساس اور بیدار ذہن کی تخلیقی کائنات کا اظہار ہے، ایک ایسے شخص کی تخلیقی کائنات کا اظہار، جو ایسے معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے جہاں تہذیبی اقدار متزلزل اور روحانیت دم بخود ہے، درد مندی کی جگہ خود غرضی نے لے رکھی ہے، رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے اور بے حسی روز بروز ترقی پر ہے۔ مخمورؔ سعیدی کی زندگی کا ابتدائی اور تعمیری دور ٹونک جیسے چھوٹے، لیکن تہذیبی شہر میں گزرا جہاں تہذیبی اقدار مستحکم اور توانا تھیں، روحانیت کی جڑیں مضبوط تھیں، رشتوں کا تقدس اور ان کی گرمی باقی تھی اور دلوں میں احساس کا سمندر موج زن تھا۔ جب ایسے ماحول سے ایک نوجوان دلّی جیسے بڑے شہر میں وارد ہو تا ہے اور یہاں کی دوڑتی بھاگتی زندگی اور لوگوں کی بے حسی احساسِ تنہائی کو جنم دینے لگتی ہے اور زندگی کا سفر جادۂ شب کے اندھیروں کا سفر بننے لگتا ہے تو فطری طور پر ذات گزینی کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے اور تفتیشِ ذات کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب اپنے وجود کی بے معنویت منکشف ہوتی ہے تو زندگی سوالوں کا جنگل بن جاتی ہے، جس کی وحشت ناکی اس کے وجود کو منتشر کرکے رکھ دیتی اگر اس کے پاس یادوں کی سنہری اور شبنمی جائے پناہ نہ ہوتی۔ لہٰذا ان یادوں کی بدولت سفرِ حیات مسلسل جاری رہا اور یہ یادیں اندھیروں میں روشنی کی لکیر بن کر اُبھرتی رہیں اور راہ کو روشن کرتی رہیں جس سے زندگی میں توازن قائم رہا۔ مخمورؔ کی شاعری بھی ان کی شخصیت کی طرح بڑی متوازن ہے۔
مخمورؔ نے اپنی شاعری کو اپنی جذباتی اور ذہنی سوانح عمری قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
“میری شاعری میری ذہنی اور جذباتی سوانح عمری ہے۔ میری آپ بیتی، اس میں جگ بیتی بھی آگئی ہے تو اس لیے کہ میں زندہ ہوں اور یہ سماج مجھ میں جی رہا ہے۔”
یہاں سوانح عمری سے مراد یہ نہیں کہ ہم ان کے اشعار کی روشنی میں ان کی سوانح مرتب کرنے لگیں بلکہ یہ ذہنی اور جذباتی سوانح عمری ہے، یعنی ان کی ذہنی اور جذباتی کیفیات کی ترجمانی۔ چوں کہ یہ ان کے دلی جذبات اور ذہنی کیفیات کی ترجمانی ہے اس لیے اکثر اشعار میں شاعر شخص اور ‘واحد متکلم’ محسوساتی سطح پر ایک وحدت میں ڈھل گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخمورؔ سعیدی کے اشعار میں ‘واحد متکلم’ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے؛ یہاں تک کہ ان کے ایک شعری مجموعے کا نام بھی ‘واحد متکلم’ہے۔ مزید بر آں ردیف کے انتخاب میں ان کا میلان واحد متکلم اور اس کے متعلقات کے استعمال کی طرف زیادہ رہا ہے۔ یہاں چند مصرعے پیش ہیں جن میں واحد متکلم بہ طور ردیف استعمال ہوا ہے، جن سے معلوم ہوگا کہ شاعر اور واحد متکلم کس طرح ایک وحدت میں ڈھل گئے ہیں اور اپنے اظہار چاہتے ہیں:
دور دریا سے سلگتا ہوا اک صحرا ہوں
میں قافلۂ وقت کا نقشِ کفِ پا ہوں
گزرتا وقت ہوں، زندانِ ماہ و سال میں ہوں
غم و نشاط کی ہر رہ گذر میں تنہا ہوں
شکارِ شعلۂ اظہار ایک میں بھی تھا
چاروں طرف سے سنگِ ملامت کی زد پہ ہوں
پے بہ پے میرے لیے پسپائیاں، میں کون ہوں
مندرجہ بالا مصرعوں میں شاعر نے اپنی ذات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے۔ ذات کا یہ انکشاف -سلگتے ہوئے صحرا، وقت کے نقشِ کفِ پا، گزرتے وقت اور شکارِ شعلۂ اظہار کی شکل میں ہوا ہے۔ احساس کی یہ تجسیم کاری اظہارِ ذات کا بہترین وسیلہ ہے۔ تجسیم کاری کا یہ عمل، یا یوں کہیے کہ پیکر سازی کا یہ عمل مخمورؔ سعیدی کی غزل کی بنیادی پہچان بھی ہے اور اس کا امتیازی وصف بھی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جن میں شاعر کے دُکھ درد، اضطراب و اضطرار، آرزو و شکستِ آرزو اور اند یشہ ہاے دور دراز جمالیاتی اظہاری پیکر میں ڈھل گئے ہیں:
ساتھ اب شام کے سائے بھی نہیں ہیں مخمورؔ
ہم ہیں اور ڈھلتی ہوئی رات کی سنسان ڈگر
جی رہا ہوں کب سے اے مخمورؔ میں وہ زندگی
دفن جو اک خوں شدہ احساس کے مدفن میں ہے
جلوس وقت کے پیچھے رواں، میں اک لمحہ
کہ جیسے کوئی جنازہ، کسی برات کے ساتھ
ہواؤں پر جو لکھی جا رہی ہے
مری بربادیوں کی داستاں ہے
اک دیا ظلمتوں کے نرغے میں
خیمۂ شب کے درمیاں روشن
پہلے شعر میں ڈھلتی ہوئی رات کی سنسان ڈگر میں شام کے سائے کا بھی ساتھ نہ ہونا، زندگی کے ہول ناک سفر میں تنہائی اور حزن کی انتہائی اذیت ناک ذہنی صورتِ حال سے آگہی بخشتا ہے۔ تیسرے شعر میں جلوسِ وقت کے مقابلے میں خود کو ‘لمحہ’ قرار دے کر ‘جلوسِ وقت’ کو ‘برات’اور خود کو ‘جنازے’سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ اور اس طرح وقت کے مقابلے میں اپنے وجود کی بے مائیگی کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ شاعر نے زندگی کے تضادات کو شعری پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ چوتھے شعر میں اپنی بربادیوں کی داستان کا ہواؤں پر لکھا جانا، کئی معنوی جہات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پانچویں شعر میں ‘خیمہ شب’ ناسازگار صورتِ حال کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے۔ خیمۂ شب میں خود تاریکی کا تلازمہ موجود ہے، مگر اس ‘خیمہ شب’ میں روشن دیے کا ظلمتوں کے نرغے میں آجانا انتہائی تاریکی اور حالات کی ناساز گاری کی صورت حال پیش کرتا ہے۔ تاریکی کے نرغے میں ہونے کے باوجود دیے کا روشن رہنا، اپنے وجود کو قائم رکھنے کی جدوجہد کا استعارہ ہے۔ اس طرح شاعر اپنی جذباتی اور ذہنی صورت حال کو اظہار کے مختلف پیرایوں میں پیش کرنے میں مصروف نظر آتا ہے لیکن اظہار کے یہ مختلف پیرایے اپنے دامن میں معنی کی ایک منفرد دنیا بھی رکھتے ہیں، اس لیے ان میں تازگی اور شگفتگی جلوہ نما نظر آتی ہے۔
جب ذہنی اور جذباتی کیفیات زیادہ پیچیدہ اور مبہم ہو جاتی ہیں تو استفہامیہ اسلوبِ اظہار جنم لیتا ہے۔ مخمورؔ کی غزل میں یہ استفہامیہ اسلوب اس وقت نمو پاتا ہے جب وہ اپنے وجود کی اصل اور اس کی معنویت پر غور کرتے ہیں یا پھر اس وقت جب متضاد اور پیچیدہ ذہنی، جذباتی اور نفسیاتی کیفیات سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں لفظ و معنی میں کوئی رشتہ قائم نہیں ہو پاتا۔ پہلے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں جن میں اپنی ذات کی تفتیش بنیادی مسئلہ بن گئی ہے:
کوئی منظر ہے نہ آواز، تماشا کیا ہے
کس نے ڈالے ہیں یہ پردے؟ پسِ پردہ کیا ہے
کس کے فروغ سے ہے معانی کی آب و تاب
لفظوں کی بے چراغ گُپھاؤں میں کون ہے
اجنبی میرے لیے خود میرے ہی دیوار و در
منحرف مجھ سے مری پرچھائیاں، میں کون ہوں
کبھی کبھی نظر آتا ہے یہ سماں کیسا
تمام عکسِ فنا، نقشِ جسم و جاں کیسا
مجرم تو کائناتِ ظہورِ انا کا میں
لپٹا ہوا انا کی رداؤں میں کون ہے
ان وجودی سوالوں میں تفتیشِ ذات کا عمل تو ظاہر ہی ہے، آگہی کی کچھ صورتیں بھی نمو پانے لگتی ہیں۔ مگر صورت حال مبہم ہی رہتی ہے۔ چند مثالیں ان اشعار کی بھی ملاحظہ کیجیے جن میں پیچیدہ ذہنی اور جذباتی کیفیات نے استفہام و استعجاب کا اسلوب اختیار کیا ہے۔ یہاں شاعر استفہامیہ اسلوب سے انکشافِ ذات کی طرف مائل نظر آتا ہے:
دلِ بے حس میں ہے طغیانیِ احساس عجب
ایک پتھر سے یہ فوّارہ اُبلتا کیوں ہے؟
وہ رنگ و نور کا پیکر، میں ذوقِ دید تمام
تو پھر یہ دھند کا پردہ سا درمیاں کیا ہے؟
کسی جلی ہوئی کشتی کا بادباں تو نہیں
یہ سطح آب پہ شعلہ سا! اک رواں کیا ہے؟
دل نہ بہلا کسی امکانِ حسیں سے اب تک
لمحے لمحے میں اک امکانِ دگر کیسا تھا؟
کبھی روشن، کبھی تاریک فضا اس گھر کی
طاقِ دل میں کبھی جلتا، کبھی بجھتا کیا ہے؟
خندۂ گل سے لہو رنگ ہوا کیوں موسم؟
خوں رلاتی ہوئی غنچوں کی چٹک کیسی ہے؟
بچ سکا کچھ بھی نہ جب قہرِ ہوا سے مخمورؔ
اک دیا آس کی چوکھٹ پہ یہ جلتا کیوں ہے؟
یہ اشعار شاعر کے ذہنی اور روحانی کرب کے غماز ہیں۔ حالات کی سنگینی اور دہشت ناکی جب حد سے بڑھتی ہے تو مخمورؔ یادوں کی آغوش میں پناہ لیتے نظر آتے ہیں اور زندگی کی تلخیوں کو ان یادوں کے سہارے کم کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی غزلیہ شاعری میں اذیت ناک ذہنی و جذباتی صورت حال کے بیان کے ساتھ یادوں کے خوش نما مرقعے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ یادیں ان کے سنہرے ماضی سے تعلق رکھتی ہیں جس میں عشق ایک بنیادی حوالہ ہے۔ اسی عشق کی بدولت مخمورؔ کی شاعری ‘یادوں کا ایک خوش نما البم’ بن گئی ہے جو بوسیدہ ہونے کے باوجود انھیں بہت عزیز ہے:
چھونا ہے تو چھولو بس احساس کی پلکوں سے
یادوں کا حسیں البم بوسیدہ و خستہ ہے
جس طرح زندگی کے آلام ان کی شخصیت کی کلیت سے مربوط ہیں۔ اسی طرح یادیں بھی ان کی ذات کی کلیت کا جزوِ لاینفک بن گئی ہیں:
گریز ہم تری یادوں سے کس طرح کرتے
کہ خود سے بچ کے گزرنا تو تھا محال بہت
یادیں ان کی شاعری کا زندہ متحرک اور فعال کردار بن گئی ہیں، جو خیالوں میں رعنائیاں بھرنے کے ساتھ دھوپ کی تمازت میں سائبان کا بھی کام دیتی ہیں۔ دیکھیے کس طرح شاعر یادوں کے البم سے اپنے خیالوں میں رعنائیاں بھرتا ہے:
ہزار عکس ہیں لمحوں کے آئینوں میں مگر
مجھے تو بس وہی چہرہ دکھائی دیتا ہے
طلوع کون افقِ یاد پر ہوا مخمورؔ
یہ نور سا جو بکھرنے لگا خیالوں میں
لمحہ لمحہ تری آہٹ کے بکھرتے ہوئے پھول
زینہ زینہ مرے آنگن میں اترتی خوشبو
کس کی پرچھائیں پڑی، کون ادھر سے گزرا
اتنی رنگیں جو گذرگاہ خیالات ہوئی
کوئی جھونکا کسی خوشبو کا جو آجاتا ہے
مدتوں دشتِ خیالات کو مہکاتا ہے
زندگی کے پر آشوب سفر میں جب کوئی سہارا نہ بچے تو ‘یادیں’ انسان کو جذباتی سہارا عطا کرتی ہیں:
خلا میں ڈوبتی آہٹیں تھیں کچھ جنھیں ہم نے
سفر میں ساتھ رکھا، منزلوں کا آسرا جانا
گزرتا جاؤں اکیلا میں جادۂ شب سے
چراغِ راہ تری یاد کا ستارہ ہو
لیکن کبھی صورتِ حال اتنی سنگین ہو جاتی ہے کہ یادوں کے قافلے بھی بچھڑ جاتے ہیں اور زندگی کے سنسان راستوں سے تنہا گزرنا پڑتا ہے:
یادوں کے قافلے بھی مجھ سے بچھڑ چکے ہیں
سنسان راستوں سے تنہا گزر رہا ہوں
عشق مخمورؔ کی غزلیہ شاعری کا ایک اہم حوالہ ہے۔ مندرجہ بالا اشعار میں بھی اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ان کی محبت کا ایک زاویہ یاد ہے۔ دوسرا زاویہ حسنِ محبوب کی رعنائیاں ہیں۔ تیسرا زاویہ تصورِ محبوب ہے جس میں محبوب سے زیادہ اہم محبوب کا خیال بن جاتا ہے۔ مخمورؔ حسنِ محبوب کی رعنائیوں اور دل فریبوں کا بیان بڑے ہی خوب صورت اور حسین پیرائے میں کرتے ہیں۔ یہاں بیان میں قدرے وضاحت اور شگفتگی کا رنگ صاف جھلکتا ہے اور تشبیہ کی ندرت سے ذہن جمالیاتی کیف سے محظوظ ہوتا ہے۔ جسمِ یار کی رعنائیوں کا حسین و دل کش پیکر ملاحظہ فرمائیں:
گداز جسم کہ صندل کا پیڑ ہو جیسے
چھوؤ تو روح میں خوشبو اُترتی جاتی ہے
نوید زندگیِ دل، لبوں کی جنبش میں
نظر، کہ بجھتے چراغوں کی لَو بڑھاتی ہے
کسی بدن کی مہک دور سے بلاتی ہے
اندھیری رات مجھے راستہ دکھاتی ہے
جب شاعر جسم کی مادّی سطح سے خیال کی ماورائیت کی طرف بڑھتا ہے تو خیال ہی سب کچھ بن جاتا ہے۔ دیکھیے:
بھِگو گیا مری خواہش کے خشک پھلوں کو
ترا خیال تھا اک لمسِ شبنمی کی طرح
سجے ہوئے ترے موسم مری زمینوں پر
کھلی ہوئی مرے افلاک پر دھنک تیری
یہ کس کا نام ہے جو نقشِ دل نشیں کی طرح
جڑا ہوا یہ سرِ لوح جاں، نگیں کی طرح
مخمورؔ کی شاعری اگرچہ ان کے ذاتی تجربات و مشاہدات سے پیدا شدہ ذہنی وجذباتی کیفیات کی ترجمانی کرتی ہے، مگر اس میں جگ بیتی بھی آگئی ہے۔ یہ جگ بیتی بقول مخمورؔ اس لیے درآئی ہے کہ:
“سماج میں زندہ ہوں اور سماج مجھ میں زندہ ہے۔”
یعنی یہ جگ بیتی ان کی ذات کی کلیت سے مربوط و ہم آہنگ ہو گئی ہے۔ فن کار اپنے عہد میں جیتاہے، مگر جب فن کار کو اپنے عہد کی دہشت ناکی کا ادراک ہوتا ہے تو وہ اس سے گریز کرتا ہوا اپنی ذات کے بطون میں اترتا ہے اور خارجی دنیا کی دہشت ناکی اسے زندگی کے اسرارِ سربستہ کو کھولنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ اس طرح اپنے عصر کا عرفان اس کی ذات کے عرفان کا حصہ بن جاتا ہے اور دونوں ایک کلیت میں مربوط ہو جاتے ہیں۔ اس طرح آپ بیتی جگ بیتی، اور جگ بیتی آپ بیتی بن جاتی ہے اور شعور عصر معاصرت کی سطح سے ماورا ہو جاتا ہے۔ مخمورؔ ان چند غزل گو شعرا میں ہیں جن کے یہاں شعورِ عصر کی تخلیقی بازیافت کا عمل جاری و ساری ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
اپنے اپنے دکھوں کی دنیا میں
میں بھی تنہا ہوں وہ بھی تنہا ہے
اس ہجومِ رنگ میں خوشبو کہاں گم ہو گئی
پھول کھلتے ہیں مگر گلشن مہکتا کیوں نہیں
مصلحت کی سنگ باری کو بہ کو ہے
دل کا آئینہ کہاں میں لے کے جاؤں
سامنے اب کوئی منزل نہ کوئی راہ گذر
گردِ درماندہ دلی چھائی ہے تا حدِ نظر
پیرہن سرخ ہے زخموں سے لہو رستا ہے
مقتلِ شب سے گزرتی ہوئی آئی ہے سحر
قربتوں میں بھی فاصلوں کی چبھن
سرخوشی میں بھی تھا ملال سا کچھ
کتنی دیواریں اُٹھی ہیں ایک گھرکے درمیاں
گھر کہیں گم ہوگیا دیوار و در کے درمیاں
منزل کا سراغ کھو گیا ہے
رستہ نابینا ہو گیا ہے
لوگ کہاں، سب چلتے پھرتے سائے ہیں
شہر نہیں، آوازوں کا اک جنگل ہے
ان اشعار میں ہجومِ رنگ میں خوشبو کا گم ہو جانا، مصلحت کی سنگ باری، تا حدِ نظر گردِ درماندہ دلی کا چھا جانا، سرخ پیرہنِ سحر کے زخموں سے لہو کا رسنا، قربتوں میں فاصلوں کی چبھن، دیوراوں کے درمیاں گھر کا گم ہو جانا، رستے کا نابینا ہو جانا، شہر کا آوازوں کا جنگل بن جانا اپنے عہد کی تخلیقی بازیافت کی بہترین مثالین ہیں اور غزل کی رمزیت کے عین مطابق بھی۔
مخمورؔ کی غزلیہ شاعری میں ایسے اشعار بھی وافر مقدار میں موجود ہیں جن میں عصری شعور زیادہ ماورائی نہیں ہوا ہے اور اس کی مادی سطح برقرار رہی ہے؛ مگر ان اشعار میں بھی برہنہ گوئی، راست بیانی اور صحافتی انداز سے انحراف صاف دکھائی دیتا ہے اور غزل کی رمزیت اور اشاریت کو بر قرار رکھا گیا ہے۔ مثلاً:
ہمارے شہر، اے مخمورؔ مقتل بنتے جاتے ہیں
بدل کر بھیس چنگیز اور نادر لوٹ آئے ہیں
شہر پر کیا سانحہ گزرا، کسی کو کیا خبر
بے صدا سب نشریے، بے لفظ سب اخبار ہیں
تقریر اس کی آگ تھی، شعلے فضا میں بھر گئی
اور شہر سارا جل گیا، تم چپ رہے، ہم چپ رہے
شبنم کی جگہ آگ کی بارش ہے فضا میں
خوابوں کی یہ بستی تھی چمن زار، مگر اب؟
مندرجہ بالا اشعار میں ہمارے عہد کی ترجمانی موجود ہے، مگر غزل کے رمزیاتی اسلوب نے ان اشعار کو معاصرت کی تنگنائے سے آزاد کر دیا ہے۔ چنگیز و نادر کا لوٹ آنا، نشریوں کا بے صدا اور اخبار کا بے لفظ ہو جانا، شعورِ عصر کا علامتی اظہار ہے۔ یہی چیزیں شاعری کواعتبار و وقار بخشتی ہیں۔
مخمورؔ سعیدی کی غزل جدید غزل میں اپنا امتیازی مقام رکھتی ہے۔ یہ مشروط ذہن کی تخلیق نہیں بلکہ آزاد تخلیقی ذہن کی پیداوار ہے۔ اسی لیے اسے کسی خانے میں رکھ کر دیکھنے کی بجائے خود شاعر کی تخلیقی حس کے حوالے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چوں کہ مخمورؔ آزاد تخلیقی ذہن کے مالک ہیں اس لیے ان کے ہاں کسی خاص تحریک سے وفاداری یا اس کی ذہنی غلامی کی توقع رکھنا خام خیالی ہو گی۔ انھوں نے کلاسکیت، رومانیت اور جدیدیت کے مثبت پہلوؤں کو اپنی غزل میں ہم آہنگ کر لیا ہے۔ اسی لیے ان کے یہاں ایک متوازن فکری اور فنی صورت حال نظر آتی ہے۔ جہاں انھوں نے وجودی مسائل اٹھائے ہیں، وہیں ذات کے کرب کو بھی بیان کیا ہے۔ اگر ایک طرف حسن کی رعنائیوں اور عشق کی سرمستیوں کا ذکر ہے تو دوسری طرف اپنے عہد کی تخلیقی بازیافت بھی کی ہے۔ اگر انھوں نے علامتی پیرایۂ اظہار اختیار کیا ہے تو تشبیہ، استعارہ اور پیکر تراشی سے بھی شعری اظہار کو دل کشی کا حامل بنا دیا ہے۔ روز مرہ کی زبان کے فن کارانہ استعمال کے ساتھ ساتھ صوتیاتی، لفظیاتی اور معنیاتی رعایتوں کے التزام نے ان کے اکثر اشعار کو فنی شاہ کار بنا دیا ہے۔ یہی متوازن فکر اور لب و لہجہ جدید غزل کو مخمورؔ سعیدی کی امتیازی دین ہے۔
Associate Professor, Urdu Dept. Rajasthan, ILD Skill University, Jaipur, Rajasthan,
Mob: 9413481379