محمد ابرار الحق یعنی معروف افسانچہ نگار ڈاکٹر ایم اے حق سے میرا رابطہ کوئی سات برس رہا ہوگا لیکن انھوں نے اس قلیل عرصے میں مجھے جس محبت و شفقت سے نوازا، محسوس ہوتا ہے شاید یہ سات برس ستّر برس کے برابر تھے۔ مجھے انھیں بہ نفسِ نفیس دیکھنے کا موقع پہلی مرتبہ ۲۰۱۲ء میں استاذی محترم جمشید قمر کے دولت کدہ پر مِلا لیکن اس وقت صرف علیک سلیک سے آگے بات بڑھ نہ سکی۔ اس کے بعد سنہ ۲۰۱۵ء میں ڈاکٹریٹ کے بعد استادِ محترم صفدر امام قادری نے مجھے کسی کام سے ان کی خدمت میں بھیجا۔ اس کے بعد ان سے ربط و ضبط ر فتہ رفتہ کچھ یوں بڑھے کہ ان کے گھر کے ایک فرد سے کم میری حیثیت نہیں تھی۔
جب ان سے باضابطہ میری پہلی ملاقات ہوئی تو انھیں اپنے رسالہ ‘ عالمی انوارِ تخلیق’ کے سلسلے سے ایک کارکن کی ضرورت تھی جو اُس کی ترتیب و تہذیب میں ان کی مدد کرے۔ مجھے بھی پی ایچ ڈی کے بعد کام کی تلاش تھی، اس لیے مجھے انھوں نے اپنے ساتھ کام میں شامل کر لیا۔ اس طرح ان کے گھر لگاتار آمد و رفت ہونے لگی۔ بعد میں انھوں نے میرے کام سے خوش ہو کر اس رسالے میں معاون مدیر کا عہد ہ بھی عنایت کیا۔
۲۰۱۸ء میں جب جی ایل اے کالج، پلامو میں بہ طور اسسٹنٹ پروفیسر میرا تقرّر ہوا تو رانچی آنے جانے کی میری سہولت میں اضافہ ہوا۔ پتا نہیں انھیں کیسے یہ اندازہ ہو جاتا کہ میں رانچی آنے والا ہوں، رانچی پہنچ چکا ہوں یا راستے میں ہوں۔ فون پر چھوٹتے ہی کہتے: “رانچی کب آئے؟” جب میں ان سے حیرت سے عرض کرتا کہ آخر آپ کو پتا کیسے چل جاتا ہے کہ میں رانچی آ رہا ہوں یا آ گیا ہوں تو مسکرانے لگتے اور فرماتے: “بس چانس لے رہا تھا۔” ان کی وفات کے بعد تو ایک دو مرتبہ ان کی اہلیہ محترمہ ثُریّا پروین نے بھی اسی طرح فون پر سوال کیا تو ان کی یاد سے دل غم گین ہو گیا۔ اگر میں رانچی میں رہتا تو تقریباً ہر روز حق صاحب کے گھر پر ضرور پہنچتا۔ کبھی کسی کام کی غرض سے، کبھی ان کی فرمایش پر۔ کبھی کبھی اس سے وقت کا زیاں بھی ہوتا کیوں کہ وقت ضایع کرانے میں وہ ماہر تھے۔ رسالے کے ہنگامی کام کے لیے بُلا کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے مجھے فارغ کر دیتے۔ ایسا نہیں تھا کہ کام ضروری نہیں تھا لیکن حق صاحب شاید “ہر فکر کو دھوئیں میں اُڑا تے چلے جانے” کے قائل تھے۔ جہاں تک میں ان کو سمجھ پایا تھا، وہ ایک ‘ ٹنشن فری’ (tension free) انسان تھے۔ اللہ نے حد درجہ محبت کرنے والی بیوی عطا فرمائی تھی۔ کم ہی لوگوں کو دیکھا کہ ان کی اہلیہ ان کا اس قدر خیال رکھتیں جیسا حق صاحب کی اہلیہ ‘ ثُریّا’ صاحبہ رکھتیں۔ اولاد بھی ویسی ہی لائق اور فرماں بردار تھیں۔ اللہ نے آزمایش کے طور پر بڑا بیٹا عابد عطا کیا۔ انھوں نے اسے بہ خوشی منظور کیا اور اس کی دوسرے بچّوں سے زیادہ جی لگا کر پرورش کی۔ باقی تین بچّوں سے عابد کی اہمیت کبھی کسی اعتبار سے کم نہیں کی۔ عام طور پر ہندستانی گھرانوں میں جسمانی اعتبار سے کم زور یا معذور اولاد سے عدم توجہی برتی جاتی ہے لیکن انھوں نے کچھ ایسے انداز میں عابد کی تربیت کا انتظام کیا کہ بڑے بڑے اخبارات نے ان کی تربیت پر خصوصی رپورٹیں شایع کیں۔ اس سلسلے سے ان کی کتاب ‘ میں اور میرا بچّہ’جو ہندی زبان میں ہے، منظرِ عام پر آئی تو اس کی زبردست پذیرائی ہوئی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ فرزندِ اوّل ہونے کے ناطے عابد کا درجہ گھر میں اونچا ہی رہا اور ابھی بھی گھر کے تمام افراد اس کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
حق صاحب کی اہلیہ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ان کی شخصیت کی ایسی دیوانی کہ پوچھیے مت۔ حق صاحب انھیں اپنی زندگی کی ایک نعمت تصوّر کرتے تھے اور مجھے ان سے جڑے مختلف قصّے بھی سنایا کرتے۔ ایک مرتبہ فرمانے لگے کہ پہلے جب کام کے سلسلے سے انھیں شہر کے باہر جانا ہوتا تو کبھی کبھی فون پر بیوی کو جلانے کے لیے پائل یا چوڑی لے کر اس سے آواز کرتے تاکہ ان کی اہلیہ کو لگے کہ وہ کسی دوسری خاتون کے ساتھ ہیں، لیکن ان کی اہلیہ یہ سمجھ جاتیں اور فرماتیں: “میں آپ کو جانتی ہوں، آپ ایسا نہیں کر سکتے، مجھے اطمینان ہے۔” اور یہ صرف کہنے کی بات نہیں۔ ثریّا صاحبہ کی بہن کے ساتھ جب کچھ ناگفتہ بہ حالات پیش آئے اور اس کے شوہر کا ساتھ چھوٹا تو انھوں نے حق صاحب سے کہا: “اگر اسلام میں دو بہنوں کو ایک شوہر کے نکاح میں رہنے کی اجازت ہوتی تو میں اپنی بہن کا نکاح بھی آپ سے ہی کرا دیتی۔” اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حق صاحب کی شخصیت ان کی اہلیہ کی نگاہ میں کس قدر عزیز تھی۔ عابد کے علاوہ صبا، عادل اور ثنا ان کی اولادیں ہیں۔ اولاد کی تربیت کا ایک نرالا انداز انھوں نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سبھی تعلیم یافتہ اور اخلاق مند ہیں۔ ملا زمت سے سبک دوشی کے بعد انھیں تصنیف و تالیف میں مصروف دیکھ کران کی اہلیہ اور اولاد نے گھر کے روزمرّہ کے کاموں سے فارغ کر دیا تھا۔ چناں چہ دونوں بچّیوں کی شادی میں متوازی طور پر ادبی پروگرام بھی انھوں نے بہ حسن و خوبی منعقد کیے۔ ثنا کی شادی میں تو میں خود شریک تھا، لیکن کبھی لگا ہی نہیں کہ شادی کے انتظامات کے سلسلے سے حق صاحب کو کسی قسم کی کوئی فکر ہو۔
وہ اردو کے عاشق اور مجاہد تو تھے ہی لیکن ایسے منفرد عاشقِ اردو میں نے کم ہی دیکھے۔ ان کی اردو کی صلاحیت بہت زیادہ نہیں تھی لیکن وہ ایک ہونہار اور محنتی طالبِ علم تھے اور اپنی محنت و لگن سے انھوں نے اردو ادب میں ایک خاص پہچان بنائی۔ بچپن میں انھوں نے کس طرح اردو سیکھی اس کے مختلف واقعات مجھے سناتے۔ اردو سے محبت کا انداز ایسا کہ گھر کے کمروں کے نام ‘ افسانہ’، ‘ داستان’ اور ‘ ناول’ رکھے تھے۔ ایک دو مرتبہ میرے سامنے عابد کو بُلا کر کہا: “عابد! داستان سے فلاں چیز لے آؤ تو۔” میں نے حیرت سے دریافت کیا تب مجھے اس کی تفصیل بتائی۔ چھوٹے چھوٹے اسٹیکر چھپواتے جس پر “مجھے اردو پڑھنے لکھنے پر فخر ہے۔” وغیرہ جیسے جملے اور سلوگن لکھے ہوتے۔ ان اسٹیکرس کو رسالے کے ساتھ لوگوں کو ارسال فرماتے اور تحفۃً بھی اپنے جاننے والوں کو دیا کرتے۔ کوئی ادیب و شاعر یا دیگر شخصیت رانچی تشریف لاتی تو ان کے پاس اتنے انتظامات ہوتے کہ ایک دن میں اچھی خاصی ادبی نشست منعقد کر لی جاتی۔ جس میں مختلف اعزازات و انعامات سے آنے والے کو نوازا جاتا۔ ادبی شخصیات کے ساتھ سماجی اور فلاحی کام کرنے والے افراد سے بھی ان کے اچھّے روابط تھے۔ خاص کر وکالت کے پیشے سے تعلّق رکھنے والے افراد سے ان کے گہرے مراسم تھے اور اس حلقے میں وہ بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ جب بھی میں ان کے ساتھ کسی وکیل سے ملنے گیا تو ہر مرتبہ دیکھا کہ ان کی عزت افزائی میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جاتی۔
مختلف بیماریوں کے بارے میں بھی انھیں کافی علم تھا۔ طرح طرح کے نسخے ذیابیطس (شوگر) کے مریضوں کو تجویز فرماتے۔ غالب روزے کو بہلانے کے قائل تھے اور حق صاحب شوگر کو۔ فرماتے تھے کہ شروع شروع میں جب انھیں شوگر ہوا تو کھانے پینے میں کمی سے اچانک شوگر کو کنٹرول میں لے آتے اور اس سے انھیں خوشی ملتی کہ یہ بیماری ان کی گرفت میں ہے اور تقریباً اس مرض سے کھیلا کرتے۔ بعد میں یہ کام انھوں نے چھوڑ دیا۔ شوگر کو بہلانے کا ان کا انداز میں نے ان کی دختر ثنا کی شادی میں دیکھا۔ استادی محترم پروفیسر صفدر امام قادری بھی ان کی خصوصی دعوت پر رانچی تشریف لائے تھے اور ہم تینوں ان کے گھر کی چھت پر چند اور افراد کے ساتھ ناشتہ کر رہے تھے۔ ٹیبل پر کچھ گلاب جامن بھی رکھے تھے۔ صفدر سر بھی شوگر کے مریض تھے، اس لیے وہ دوسری چیزیں تناول فرما رہے تھے۔ اچانک حق صاحب کا ہاتھ لہرایا اور ایک مکمل گلاب جامن ان کے حلق سے نیچے اُتر گیا۔ حق صاحب کی تیزی دیکھ کر صفدر سر نے بڑا لطف لیا اور فرمایا: “آپ نے جس طرح یہ گلاب جامن نوش فرمایا، اس کا جواب نہیں۔” ان کی اس حرکت پر ہم سب ہنسنے لگے اور حق صاحب بھی تجاہلِ عارفانہ اختیار کرتے ہوئے اپنے منفرد انداز میں مسکرانے لگے۔
حق صاحب پابندِ صوم و صلوٰۃ تو تھے ہی لیکن کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جھاڑ پھونک میں بھی ماہر تھے۔ حالاں کہ وہ گھر کے افراد اور اپنے جاننے والوں پر ہی ہاتھ آزماتے تھے۔ ان کو اگر کسی دعا یا وظیفے کا پتا لگ گیا جس سے کوئی بیماری ٹھیک ہوتی ہے تو وہ اسے ضرور آزمائیں گے۔ بریاتو میں میرے محلّے سے قریب دوسرے محلّے میں ان کے ایک قریبی دوست دوٗبے جی رہتے ہیں۔ ان کے یہاں حق صاحب کا اکثر جانا ہوتا۔ انھیں جب ایک بیماری ہوئی تو ایک طویل عرصے تک اپنے وظائف سے دم کیا ہوا پانی لا کر دوبے جی کو پلاتے اور اس سے انھیں فائدہ بھی ہوا۔ گھر پر بھی مختلف امراض کے لیے وظائف پڑھ کر بیوی بچّوں کو دیتے۔ مختلف اوقات میں تبادلۂ خیال کے دوران انھوں نے اس سلسلے سے اپنے کئی تجربات مجھ کو بتائے۔
حق صاحب معاملات کے پکےانسان تھے۔ مجھ سے اکثر فرماتے: “مجھ سے اگر کہو گے تو میں سیکڑوں روپے کسی پر خرچ کر دوں گا لیکن اگر اسی نے مجھ سے دس روپے بھی ادھار لیے ہیں تو اس کو وہ رقم واپس کرنی ہوگی۔” ان کی یہ بات مجھے بڑی پسند آئی۔ ان کی شخصیت کی کچھ ادائیں تھیں جو مجھے بہت بھاتی تھیں۔ اپنے تعلّقات کے افراد کا خیال کرنا بھی ان میں سے ایک تھا۔ کئی مرتبہ جب مجھے بھی مالی طور پر ان کی مدد کی ضرورت ہوئی تو انھوں نے مجھے مایوس نہیں کیا۔ قرض دیا لیکن کبھی تقاضا نہیں کیا۔ الفا گرافکس کے دانش ایاز جو اُن کے رسالوں کی کمپوزنگ کا کام کرتے تھے، انھوں نے مجھے بتایا کہ ایک دن حق صاحب ان کی دکان پر تشریف فرما تھے۔ بجلی نے دغا دی تو پریشانی ہوئی۔ انھوں نے دانش سے اس کے بارے میں پوچھا تو دانش نے کہا: “بجلی کے اس روّیے سے اکثر پریشانی ہوتی ہے۔” فوراً کچھ رقم دے کر نیا اِن وَرٹر(Inverter) لگوا دیا۔ اسی طرح اپنے رسالے کے دوسرے کمپوزر اور گرافک ڈیزائنر محمد آصف(الحرم گرافکس) کی بھی مالی مدد فرماتے۔ ایک مرتبہ شہر سے باہر کہیں سفر پر تھے۔ غالباً دسمبر کے آخری ایّام تھے۔ مجھے فون کرکے بتایا کہ کچھ رقم بھیجی ہے۔ میں نے کہا: “کیوں ؟” فرمایا: “ارے! نیا سال ہے۔ تمھارے لیے تحفہ سمجھ لو۔” اکاؤنٹ چیک کیا تو پتا چلا چار یا پانچ ہزار روپے انھوں نے بھیجے ہیں۔
حق صاحب خوش مزاج انسان تھے اور ان کے مِزاح کی حِس بھی توانا تھی۔ وھاٹس ایپ پر مختلف چٹکلے یا میم (MEME) بھیجا کرتے۔ میں کوئی مزاحیہ ویڈیو انھیں ارسال کرتا تو بہت لطف لیتے۔ کھل کر ہنستے اور اپنے دوستوں کو بھی شیئر کرتے۔ ان کا یہ منفرد انداز لوگوں کی تعریف کے وقت بھی کام آتا۔ میرے گھر تشریف لاتے تو بچّوں سے مل کر اور ان کی اردو اور عربی کی صلاحیت دیکھ کر بڑے خوش ہوتے۔ مجھ سے مذاقاً کہتے: “تمھارے بچّوں سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے، ایسی تلفّظ والی اردو عربی بولتے ہیں کہ کیا کہوں۔” میرے بچّوں کے سلام کا انداز نقل کرکے فرماتے: “السّلامُ ‘ عَ’لیکم” ع پر زور دیتے اور خوب ہنستے۔ کبھی فون پر بات کر تے اور مزاج خوش ہوتا تو میرے بچّوں کے بارے میں فرماتے: “تمھارا بچّہ تو تلفّظ سے روتا ہے۔” اور خوب قہقہے لگانے لگتے۔
بنیادی طَور پر تو حق صاحب افسانچہ نگار تھے اور اختصار میں اپنی تحریروں کو پیش کرنے میں مہارت رکھتے تھے لیکن فون پر گفتگوٗ کرتے ہوئے یہ صورت بالکل بدل جاتی۔ میں ان سے کہتا: “آپ ہیں تو افسانچہ نگار لیکن فون پر بات کرتے ہیں تو داستان گو ہو جاتے ہیں۔” دو چار مرتبہ جب میں نے ان سے شکایت کی کہ آپ فون پر زیادہ وقت لیتے ہیں تو انھوں نے مجھے ایک نسخہ بتایا جس سے وہ جلدی فون کاٹ دیں گے۔ فرمانے لگے: “ایسا کِیا کرو کہ جب تمھیں لگے کہ بات لمبی ہو رہی ہے توبولا کرو- “مودی… مودی۔” ایک مرتبہ میں نے اس نسخے کو آزمانا چاہا اور ان سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا: “مودی… مودی”۔ مجھے لگا تھا وہ اس اشارے کو سمجھ جائیں گے لیکن شاید وہ اس بات کو بھول چکے تھے۔ فرمانے لگے: “کیا… کیا؟” مجھے مودی کہتے ہوئے ہی ہنسی آ رہی تھی۔ جب وہ اپنا دیا ہوا نسخہ ہی بھول گئے تو اتنی شدت سے ہنسی آئی کہ پیٹ پر بَل پڑ گئے۔
اپنی تنقید کو بھی حق صاحب مثبت انداز میں لیتے۔ افسانچوں کے تعلّق سے ان پر کئی افراد نے سخت باتیں لکھیں۔ ان میں استادِ گرامی سرور ساجد نے تو یہاں تک کہہ دیا: “افسانچہ اردو افسانے کی ناجائز اولاد ہے۔” سرور ساجد کے اس ایک جملے پر انھوں نے اپنے رسالے ‘ عالمی انوارِ تخلیق’ میں دو تین قسطوں میں مباحثہ شائع کیا جس میں کثیر تعداد میں اردو کے ادیبوں نے حصّہ لیا اور اس سلسلے سے اپنی آرا پیش کیں۔ جب انھوں نے اپنی نئی ایجاد کردہ صنف افسانچۂ اطفال کی پہلی کتاب ‘ اونچی اڑان’ شائع کی تو کئی مرتبہ مجھ سے کہا: “سرور کو جب یہ کتاب دوں گا تو اس پر لکھوں گا کہ اردو افسانے کا ناجائز پوتا بھی پیدا ہو گیا۔” یہ کہہ کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرانے لگے۔ قدرت نے انھیں یہ موقع نہیں دیا ورنہ وہ ضرور ایسا ہی کرتے۔
کوئی انسان چاہے کتنا ہی بڑا ہو۔ اس کی ادبی حیثیت بہت زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ حق صاحب کو پسند نہ آتا تو بس ایک مخصوص جملہ ادا کرتے: “ایک دم فالتو آدمی ہے۔” اور اس انداز سے یہ جملہ ان کی زبان سے ادا ہوتا کہ اس شخصیت کا سارا جاہ وجلال دھڑام سے زمین پر گر جاتا۔ شخصیت کی کجی نہ ان میں تھی اور نہ وہ اس کو پسند فرماتے تھے۔
اپنے تعلّقات کے افراد کو اپنی کہانیوں اور افسانچوں میں جگہ دینے میں وہ ماہر تھے۔ جب ان کے افسانچوں کا دوسرا مجموعہ ‘ ڈنک’ شایع ہوا تو میں نے دیکھا کہ اس میں اکثر افسانچے ان کے دوستوں اور احباب کے نام معنون ہیں جن میں ادبی اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔ صفحات اُلٹتے الٹتے اچانک ایک افسانچے پر میری نظر پڑی جس کا عنوان ‘ شاباشی’ تھا۔ اس کے اوپر خاک سار کا نام درج تھا۔ میں دیکھ کر چونک پڑا۔ ‘اونچی اُڑان’ میں شامل کہانیوں میں ان کے دوستوں کے نام کئی جگہ پر مل جائیں گے۔ ایک افسانچۂ اطفال ‘ بچّہ مزدور’ میں تو میرے تینوں بچّوں کے نام درج ہیں۔ اس میں تین مصرعوں کی ایک چھوٹی سی نظم درج ہے جو حق صاحب کی ہی تخلیق ہے: “بچہ مزدور ہے + چھوٹا ہے لیکن + بچپن سے دور ہے”۔ اسے میں نے اپنے بچّوں کو مترنم انداز میں پڑھنا سکھادیا اور حق صاحب کو جب میرے بچّوں نے اس نظم کو پڑھ کر سُنایا تو اِسے سن کروہ بڑے خوش ہو ئے اور اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے کہا: “تمھارے بچّے تو غضب ہیں۔” جب بھی میں گھر پر ہوتا اور حق صاحب کا فون آتا تو اُن کو خوش کرنے کے لیے میں بچّوں سے یہ نظم پڑھوا دیا کرتا۔
اپنے دوستوں اور حلقۂ احباب کی خبر گیری بھی حق صاحب کا خاص وصف تھا۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری کو جب برین ہیم ریج ہوا تواس خبر سے بڑے رنجیدہ ہوئے تھے اور تقریباً ہر دن عیادت اور مزاج پرسی کے لیے ان کے ایک شاگرد کے پاس فون کرتے۔ مختلف اوقات میں ادبی دوستوں کے گزر جانے سے بھی ان پر غم کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ خاص طور پر رؤف خوشتر کے ارتحال کا انھیں گہرا صدمہ پہنچا تھا۔
اپنے ادبی دوستوں سے جڑے رہنے کے لیے فیس بک حق صاحب کاسب سے بڑا ساتھی تھا۔ دنیا جہان کے لوگوں سے وہ فیس بک کے ذریعے رابطے میں رہتے۔ اپنے رسالے ‘ عالمی انوارِ تخلیق’ میں وہ بین الاقوامی سطح کی تحریریں شایع کرنے کے قائل تھے، اس سلسلے میں ناصر ناکا گاوا(جاپان) اور دیگر ممالک کے ادبا و شعرا سے فیس بک کے ذریعے ہی انھوں نے انٹرویو لیا۔ وہ خالی بیٹھے رہنے والوں میں سے نہیں تھے۔ نئی تکنیک اور علوم سے واقفیت رکھنے کی ان میں ہمیشہ ایک لَلک دکھائی دیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد انھوں نے وکالت کی پڑھائی کی اور ہائی کورٹ میں مختلف وکلا کے ساتھ وکالت میں ہاتھ آزماتے رہے۔ اس کے علاوہ اردو میں ٹائپنگ بھی انھوں نے سیکھ لی تھی اور اپنے اکثر افسانچے اور کہانیاں وہ خود ہی ٹائپ کیا کرتے۔
اپنی عمر کے بارے میں حق صاحب ذرا حسّاس تھے۔ اس سلسلے سے وہ خوب جوڑ توڑ کرتے اور مختلف حربوں سے خود کو چھوٹی عمرکا دِکھانے کی کوشش کرتے۔ مختلف ضعیف ادبا اور شعرا سے اپنے سِن کا موازنہ کرکے مجھ سے فرماتے: “دیکھو! فلاں صاحب کی عمر اتنی ہے؟” میں کہتا: “جی ہے تو!” فرماتے: “تب تو میری عمر ابھی کم ہی ہے۔” اس بات سے انھیں بڑی خوشی ملتی۔ قسمت کا لکھا کیا تھا شاید انھیں پہلے سے ہی اس کا احساس ہو گیا تھا۔ پہلے پہل جب کورونا کی وبا عام ہونا شروع ہوئی تو فون پر بات کرتے ہوئے مَیں نے مذاقاً ان سے عرض کیا: “آواز ٹھیک سے نہیں آ رہی ہے، کورونا تو نہیں ہو گیا؟” مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس بیماری سے کس قدر خوف زدہ ہیں۔ میری یہ بات سنتے ہی وہ برہم ہو گئے اور فون کاٹ دیا اور لگ بھگ تین دنوں تک مجھ سے بات نہیں کی۔ جب بھی کورونا کا تذکرہ آتا، فوراً موضوع بدل دیتے۔ دوسری لہر میں گھر میں رہتے ہوئے ان کو اس منحوس بیماری نے اپنی گرفت میں لے لیا اور انھیں اس دنیا سے رخصت کرکے چھوڑا۔ مجھے حق صاحب کو آخری غسل دینے کا شرف حاصل ہوا۔ انھیں غسل دیتے ہوئے بھی ایسا محسوس ہوا کہ وہ پورے وقت مسکرا رہے ہیں اور لگ رہا تھا کہ اب بول پڑیں گے، تب بول پڑیں گے۔ انتقال کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں ان کے گھر پر موجود ہوں۔ حق صاحب پہلے کی طرح اپنی کرسی پر تشریف فرما ہیں اور مسکراتے ہوئے مجھ سے گفتگو فرما رہے ہیں۔ میں بات کرتے ہوئے حیرت میں پڑا ہوں کہ آخر حق صاحب قبر سے کیسے نکلے اور اتنے دن کیسے وہ وہاں بچے رہے۔ نیند کھلی تومیں نے اس خواب کے بارے میں اندازہ لگایا کہ ان کے ساتھ قبر میں اچھا معاملہ ہوا ہوگا۔ کیوں کہ جب تک وہ اس دنیا میں رہے، خوش مزاجی اور محبت کا پیکر بنے رہے اور ضرورت مندوں، کم زوروں کے کام آتے رہے۔ ان سے میری قربت اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ دنیا سے گئے تو لگا کہ جیسے میرے والدین میں سے کوئی مجھ سے جدا ہو گیا ہے۔ ان کی پہلی برسی کے موقعے پر غالب کا یہ مصرع ان کی شخصیت کے تعلّق سے بالکل موزوں معلوم ہوتا ہے:
“حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا”
Assistant Professor, Dept. of Urdu, GLA College, Medini Nagar, Palamau, Jharkhand
Email: [email protected]