الٰہ آباد کی وجہِ شہرت وہاں کا ‘سفیدہ ‘امرود ہے یا پھر گنگا جمنی ملاپ یعنی سنگم، اس کے بعد دنیائے شعر و ادب کی وہ عظیم اور نام ور ہستی ہے، جس سے اکبر الٰہ آبادی کے نام سے ساری اردو دنیا متعارف ہے اور جسے طنز و مزاح کا بابائے آدم کہا جاتا ہے۔ تعلق تو اس خاکسار کا بھی اسی تاریخی شہر الٰہ آباد سے ہے مگر یہ خاکسار آج تک خاکسار ہی رہا کبھی نام ور نہ ہو سکا۔ اکبر الٰہ آبادی کے بعد بہت سارے شعرا ایسے آئے جنھوں نے دنیائے طنز و مزاح میں ہلچل مچا دی۔ بہت سارے نام ہیں میں ان حضرات کے نام لکھ کر اپنے مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ اکبر کے بعد آنے والا کوئی بھی شاعر اکبر جیسا رنگ اختیار نہ کر سکا۔ حالاں کہ بقول شاعر…”ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا” مگر …”وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی” اکبر کا رنگ ہی منفرد تھا۔ وہ جو کچھ بھی کہتے اس میں مزاح کے ساتھ بلا کا طنز ہوتا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک ایسا شعر جو زبان زدِ خاص و عام ہے اسی سے میں اپنی بات کا آغاز کرنا چاہوں گا۔
بتائیں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
اب ذرا آپ اس مصرعے پر غور فرمائیں جو اولیٰ ہے اور جس نے قاری کے ذہن میں بے شمار خوف ناک قسم کے سوالات پیدا کر دیے۔ قاری کو یقین ہے مصرعۂ ثانی میں شاعرِ محترم قبر کے اندر منکر نکیر کے سوالات وجوابات، وہاں کے خوف ناک حالات اور عذابِ قبر سے قاری کو مطلع فرما کر اس کی زندہ روح میں ایسی کھلبلی پیدا کردیں گے کہ وہ غریب زندہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو قبر کے اندر محسوس کرنے لگے گا مگر صاحب آفرین ہے اس شاعرِ باکمال اکبر الہ آبادی کو کہ اب طنز کا جو تیر وہ چلانے والا ہے وہ نیم کش نہیں جگر کے پار ہونے والا ہے…
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
قاری کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ رہی ہوگی جو اکبر نے مصرعۂ ثانی میں کہہ دی مصرعۂ اولیٰ نے قاری کا جتنا خون خشک کیا تھا، اس سے کہیں زیادہ خون مصرعۂ ثانی نے اس کے جسم میں پیدا کر دیا۔ ظاہر ہے پلاؤ کی لذّت اور ذائقہ میں بہت طاقت ہے۔
اکبر نے اپنے اشعار میں مشکل قوافی کا استعمال جس انداز سے کیا ہے، اس کی نظیر کہیں اور مشکل سے ملتی ہے۔
پکالیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑے سے جَو لانا
ہماری کیا ہے اے بھائی! نہ مسٹر ہیں نہ مولانا
شیخ صاحب دیکھ کر اُس مِس کو ساکت ہوگئے
ماسٹر صاحب بہت کم زور تھے چت ہوگئے
شیخ جی گھر سے نہ نکلے اور مجھ سے کہہ دیا
آپ بی اے پاس ہیں اور بندہ بی بی پاس ہے
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ چلتا ہے آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
اکبر 16 نومبر 1846 کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ والدین نے نام رکھا سید اکبر حسین رضوی مگر بقول اقبال ”اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے” اکبر نے اپنی دنیا اور اپنا نام خود پیدا کیا۔ اکبر الٰہ آبادی ہی وہ نام ہے جس نے دنیائے شعر و ادب میں وہ مقام حاصل کیا جسے حاصل کرنے کے لیے لاتعداد شاعر اور ادیب تمناّ ساتھ لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
بس یہی حال اکبر کا بھی ہے نہ تو اکبر سے پہلے اور نہ اکبر کے بعد ‘اکبر’ تو کیا کوئی ‘اصغر’ بھی پیدا نہ ہوا۔ اکبر نے جس دور میں آنکھ کھولی ہندستان انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور زندگی ”اک جوئے کم آب” کے مانند آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی تھی۔ ایسے دورِ غلامی میں معاشرے کی خامیوں کو اجاگر کرنا اکبر کا کمال تھا…
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکاّم کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
ہادیِ قوم بنو قوم کے مہمان بنو
خود تو پہلے مگر اے یار مسلمان بنو
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
تری دیوانگی پر رحم آتا ہے ہمیں اکبرؔ
کوئی دن وہ بھی ہوگا ہم تجھے انسان دیکھیں گے
خدا کا فضل ہے بیوی میاں دونوں مہذّب ہیں
حیا ان کو نہیں آتی انھیں غصّہ نہیں آتا
گیارہ سال کی عمر سے شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ شاعری کا آغاز غزل سے کیا۔ اکبر کے استاد تھے اپنے وقت کے غزل کے بہترین شاعر وحید الٰہ آبادی۔ اکبر کے چند غزل کے اشعار…
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
چوں کہ حسِّ مزاح اکبر کے مزاج کا حصّہ تھا لہٰذا اپنی سخن وری کو طنزومزاح کا پیراہن دیا اور جو بات بھی کی ”خدا کی قسم لا جواب کی”
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
عاشقی قیدِ شریعت میں جب آجاتی ہے
جلوۂ کثرتِ اولاد دکھا جاتی ہے
بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
لیکن نہ موت آئے تو بوڑھے بھی کیا کریں
مغربی ممالک نے جہاں سائنس میں بے پناہ ترقی کی وہاں آہستہ آہستہ انھوں نے لادینیت کی راہ اختیار کی۔ اکبر نے دونوں اعمال کو فقط دو مصروں میں کس خوب صورتی سے یکجا کر دیا …
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
اکبر کی زبان کی خوش بیانی اور قلم کی گہر فشانی اس قطعے سے ملاحظہ فرمائیے:
کھولی ہے زبان خوش بیانی کے لیے
اٹھّا ہے قلم گہر فشانی کے لیے
آیا ہوں میں کوچۂ سخن میں اکبرؔ
نظاّرۂ شاہدِ معانی کے لیے
اور نظاّرۂ شاہدِ معنی میں اکبر نے محسوس کیا کہ موسم سرد ہے اور ہوائیں چل رہی ہیں برف بار، لہٰذا انھوں نے شاہد معنی کو ظرافت کا لحاف اوڑھا دیا اور اس ظرافت کے لحاف کی گرمی نے کوچۂ سخن کو جو حرارت بخشی، اس نے اکبر کو دنیائے شعر و ادب میں وہ مقام عطا کیا جو آج تک کوئی اور حاصل نہ کر سکا۔
سرد موسم تھا ہوائیں چل رہی تھیں برف بار
شاہدِ معنی نے اوڑھا ہے ظرافت کا لحاف
اکبر اپنی نظم ‘برق کلیسا ‘میں ایک ماڈرن حسینہ سے بر سرِ تکرار ہیں اور اسے یقین دلانے کی حتی الامکان کوشش کر رہے ہیں کہ شاعر مذہبِ اسلام کا پیروکار ضرور ہے مگر ساتھ ساتھ روشن خیال بھی ہے لیکن حسینہ جھانسے میں آنے والی نہیں ہے اور اسلام کو ایک مشکل ترین مذہب قرار دے کر فرار چاہتی ہے مگر شاعر کسی بھی قیمت پر اسے رام کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا آخر میں وہ ایک ایسا حربہ استعمال کرتا ہے جس سے وہ پتھر دل حسینہ موم ہو جاتی ہے اور شاعر اپنے مقصد میں کام یاب ہو جاتا ہے نظم طویل ہے لہٰذا چند اشعار سے ہی آپ مستفید ہو سکتے ہیں:
رات اس مس سے کلیسا میں ہوا میں دو چار
ہائے وہ حسن وہ شوخی وہ چہرے پہ نکھار
آتشِ حسن سے تقوے کو جلانے والی
بجلیاں لطفِ تبسّم سے گرانے والی
عرض کی میں نے کہ اے گلشنِ فطرت کی بہار
دولت و عزت و ایماں تر ے قدموں پہ نثار
تو اگر عہدِ وفا باندھ کے میری ہو جائے
ساری دنیا سے میرے قلب کو سیری ہو جائے
شوق کے جوش میں میں نے جو زباں یوں کھولی
ناز و انداز سے تیوری کو چڑھا کر بولی
غیر ممکن ہے مجھے انس مسلمانوں سے
بوئے خوں آتی ہے اس قوم کے انسانوں سے
عرض کی میں نے کہ اے لذّتِ جاں راحت روح
اب زمانے پہ نہیں ہے اثر آدم ونوح
مجھ پہ کچھ وجہ عتاب آپ کو اے جان نہیں
نام ہی نام ہے ورنہ میں مسلمان نہیں
میرے اسلام کو ایک قصّۂ ماضی سمجھو
ہنس کے بولی کہ تو پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو
اکبر کی شاعری ان کے عہد کی آئینہ دار ہے۔ اس دور میں تعلیمِ نسواں ایک مسئلہ تھا۔ ہندو یا مسلمان کوئی بھی اپنی لڑکیوں کو اسکول یا کالج بھیجنے کے حق میں نہیں تھا۔ دنیا تیزی سے ترقی کی سمت گام زن تھی۔ ایسے دور میں تعلیمِ نسواں وقت کی ضرورت تھی۔ اکبر نے اسے شدّت سے محسوس کیا۔ وہ اس کے حق میں تھے مگر ان کا کہنا تھا:
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
علاّمہ اقبال نے ‘ترانۂ ہندی’لکھ کر تمام ہندستانیوں میں بیداری کی لہر پیدا کر دی اور انھیں جتا دیا کہ تم ہندی ہو اور تمھارا وطن ہندستان ہے, پھر انھیں مسلمانوں کا خیال آیا کہ وہ تو روئے زمین پر ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں، ان کی دل شکنی نہ ہو لہٰذا ‘ترانۂ ملی’لکھ کر دنیا کے سارے مسلمانوں کو یقین دلا دیا کہ وہ مسلم ہیں اور سارا جہاں انھی کا ہے۔ اکبر کی شوخیِ تحریر نے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا:
کالج میں ہو چکا جب امتحاں ہمارا
سیکھا زباں نے کہنا ہندوستاں ہمارا
رقبے کو کم سمجھ کر اکبر وہ بول اٹھے
ہندوستان کیسا سارا جہاں ہمارا
اکبر مولانا شبلی کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہتے تھے۔ بات اشعار میں کہی گئی۔ ان اشعار کی خوبی ان کے قوافی ہیں۔ آپ ذرا غور فرمائیں:
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی
بس صاف یہ ہے کہ بھائی شبلی
تکلیف اٹھاؤ آج کی رات
کھانا یہیں کھاؤ آج کی رات
حاضر جو کچھ ہو دال دلیا
سمجھو اسی کو پلاؤ قلیہ
اکبر کے دور میں مسلمان خواتین تو کیا غیر مسلم خواتین بھی پردے کا خیال رکھتی تھیں۔ جب گھر سے باہر نکلتیں تو گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیں۔ چوں کہ حکومت انگریزوں کی تھی، ان کی خواتین بے حجابانہ گھروں سے باہر پھرا کرتی تھیں۔ اثرات تو آنے تھے، لہٰذا اکبر کو کچھ مسلم بیبیاں بے پردہ کہیں نظر آ گئیں، بس پھر کیا تھا اکبر کا قلم بھلا کہاں رکنے والا تھا۔ ایسا قطعہ کہہ گئے جو امر ہوگیا:
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
علاّمہ اقبال نے کہا تھا:
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
چوں کہ اکبر اور علاّمہ کی عمروں میں تینتیس سال کا فرق ہے۔ لہٰذا مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس خیال کو اکبر نے علاّمہ سے پہلے کہا ہوگا:
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اکبر آزادیِ نسواں اور بے پردگی کے سخت مخالف تھے۔ اسی دور میں ترقی پسند خواتین اپنے کام میں مصروفِ عمل تھیں۔ وہ اکبر کی مخالف تھیں۔ خاص طور پر لاہور سے شائع کردہ ”تہذیب نسواں”ان سب میں پیش پیش تھا مگر اکبر ان تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے مقصد میں ڈٹے رہے۔ شاید اسی موقع پر انھوں نے کہا تھا:
اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہوگئے بیگم کی نوج سے
مجنوں اور لیلیٰ کی ماں سے تعلق رکھنے والے فرضی لطیفے میں اگر جان ڈالی ہے تو وہ ہیں اکبر کے اشعار۔ چند اشعار آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے ایم اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلا وقت میں بن جاؤں تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عشق کجا کالج کی بکواس
بڑی بی آپ کو کیا ہوگیا ہے
ہرن پر لا دی جاتی ہے کہیں گھاس
یہی ٹھہری جو شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفا مرا با حسرت و یاس
اکبر انگریزوں کے دور میں پیدا ہوئے اور انگریزوں کے ہی دور میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب اکبر نے فقط پندرہ سال کی عمر میں ایک ٹھیکیدار کے پاس بیس روپے ماہوار پر بطور کلرک کام کیا، الٰہ آباد میں دریائے جمنا پر پل تعمیر ہو رہا تھا۔ وہ ٹھیکیدار اس پل کی تعمیر پر مامور تھا اور ایک دور وہ بھی تھا جب اکبر نے اپنی ذہانت سے وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکیل ہوگئے پھر منصف ہوئے اور آخر میں سیشن جج کے عہدے سے سبک دوش ہوئے، انگریزوں نے ”خان بہادر” کے خطاب سے نوازا، الٰہ آباد میں شہر کے درمیان ایک شان دار کوٹھی ”عشرت منزل” میں ان کی رہائش تھی ”عشرت منزل” اکبر کے صاحب زادے عشرت کے نام سے منسوب تھی۔ یہ وہی عشرت ہیں جنھیں اکبر نے بغرضِ تعلیم انگلستان بھیجا تھا۔ ایک مرتبہ عشرت نے خط کا جواب لکھنے میں تاخیر کی تو اکبر نے ساتھ یہ قطعہ بھی لکھ دیا:
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
مرزا غالب کی طرح اکبر کو بھی آم بہت پسند تھے، آم کسے پسند نہیں ہے، مجھے بھی آم بہت پسند ہے مگر افسوس کہ میں شاعر نہیں ہوں ورنہ میں بھی آم کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھ کر ادبی حلقوں میں مشہور ہو جاتا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اکبر کو آم بہت پسند تھے لہٰذا انھوں نے اپنے ایک بے تکلف دوست منشی نثار حسین مہتمم ”پیامِ یار” لکھنو کو منظوم خط لکھ کر آموں کی فرمائش اس طرح کی:
نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجیے
اس فصل میں جو بھیجیے بس آم بھیجیے
ایسے ضرور ہوں کہ انھیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر ہوں بیس تو دس خام بھیجبے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجیے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہوگی پہلے مگر دام بھیجیے
مشہور واقعہ ہے کہ کلکتہ کی ایک نام ور طوائف گوہر جان الٰہ آباد آئی، اسے خان بہادر اکبر ا لٰہ آبادی سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا۔ لہٰذا الٰہ آ باد کی ایک طوائف جانکی بائی کے ہم راہ اکبر سے ملنے ان کی کوٹھی ”عشرت منزل” گئی۔ گوہر جان نے اکبر سے فرمائش کی کہ اس کے لیے کوئی شعر کہہ دیں۔ اکبر نے ایک شعر کاغذ پر لکھ کر گوہر جان کے ہاتھ میں دے دیا:
خوش نصیب آج یہاں کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
میرا مضمون کچھ طوالت اختیار کر چکا ہے لہٰذا اسی جگہ اکبر کے ایک شعر پر مضمون ختم کرتا ہوں:
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے ایک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا