ٹرین پوری رفتار کے ساتھ بھاگی جا رہی تھی اور وہ آنکھیں موندیں اپنی سیٹ پر بیٹھی منزل کا انتظار کر رہی تھی۔ بہت بے چین تھی وہ۔ جلد سے جلد اپنی جگہ پر پہنچ جانا چاہتی تھی۔ بند آنکھوں میں وہ پرانے دنوں کو سجائے مسکرائے جارہی تھی۔
وہ بڑا سا نیم کا درخت جس کی ڈالیوں پر جھوٗلا ڈالے وہ سب سہیلیاں اوٗنچی اوٗنچی پینگیں لیا کرتی تھیں۔ایک بڑا سا میدان جس کے سامنے ہی ایک لال رنگ کی کوٹھی تھی۔ کوٹھی رما چاچی کی تھی جو ہم سبھی لڑکیوں کو ہر وقت نصیحتیں کیا کرتی تھیں، ایسے نہ کرو۔ ویسے نہ کرو۔ کل کو پرائے گھر میں جاؤگی اور ایسی تیزی۔
ہم سب ہنس دیا کرتے تھے۔ ان سے بھی ملنے جاؤں گی۔ مجھے یاد ہے جب میں رخصت ہو رہی تھی تو انھوں نے کس طرح مجھے لپٹا لیا تھا اور دیر تک روتی رہی تھیں۔
اور نرگس آپا جو سارا دن اپنی مرغیوں کے پیچھے پریشان ہلکان ہوا کرتی تھیں۔ جب ان کی مرغیاں ہمارے آنگن میں آ جاتیں تو امّی کا بڑبڑانا شروع ہوجاتا۔
پتہ نہیں کیوں اتنی ساری مرغیوں کو پال رکھا ہے۔ خود بھی پریشان ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی پریشان کرتی ہے۔
لیکن جب نرگس آپا آنچل میں چھپائے انڈے لے کر آتیں اور امّی کو دے کر کہتیں۔ ”بھابی! بچوں کو یہی انڈے کھلایا کریں، فائدہ ہوتا ہے۔” تب ان کے جانے کے بعد امّی ان کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتیں۔ اسی طرح پڑوس والی دادی کے لڈّو، جو ہر سال جاڑے میں وہ بناتیں اور آس پاس کے سارے گھروں میں بانٹتی پھرتیں۔ امّی زبردستی ہم لوگوں کو کھانے کے لیے کہتیں۔”کھایا کرو: میتھی کے لڈّو ہیں: سردیوں میں آرام ملتاہے۔”
لیکن مجھے تو وہ سخت سخت سے لڈّو بالکل پسند نہیں تھے۔
اچانک ہی ٹرین رک گئی تھی اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ سوچوں کے دائرے منتشر ہوگئے۔
”مرزاپور آگیا کیا؟”
”نہیں، یہ تو کوئی اور اسٹیشن ہے۔”
ٹرین یہاں کیوں رک گئی؟ مرزاپور میں ہی رکنا تھا اسے۔
معلوم ہوا کہ سگنل نہیں مل رہا تھا۔ اس لیے ٹرین رک گئی تھی۔ اور یہ پل اس کے لیے صدیاں بن گئے تھے۔ وہ جلد سے جلد اپنے گھر پہنچنا چاہتی تھی، امّی کے پاس۔ اور وہ کچھ دنوں کے لیے وہی زندگی جینا چاہتی تھی، تیس سال پہلے والی۔
مرزاپور: اس کا چھوٹا سا شہر!
آج سے تیس سال پہلے اس کی شادی ہوئی تھی۔ تیس سال: ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد وہ امّی کے پاس جارہی تھی۔
ٹرین پھر چلنے لگی تھی۔ اور وہ پھر سے آنکھیں موند کر بیتے دنوں کو دیکھنے لگی تھی۔ شاد ی کے بعد تیس سال کیسے گزرے، پتاہی نہیں چلا۔ زندگی کی مصروفیات مسلسل اس کے ساتھ رہیں۔ ایسا نہیں ہے ان تیس برسوں میں وہ مرزاپور آئی ہی نہیں تھی۔ وہ تو یہاں کئی بار آئی لیکن ہر بار بس تین چار دنوں کی چھُٹی میں ہی آئی۔
شادی کے ایک سال بعدہی رمیز اس کی گود میں آگیا۔ پھر تو دن بھر کاموں میں پریشان رہنے لگی۔ عمران تو دس بجے نکلتے تو پھر سات بجے سے شام سے پہلے واپسی نہیں ہو پاتی۔ رمیزنے ابھی تین سال بھی پورے نہیں کیے تھے کہ چھوٹی سی گڑیا اس کے پاس آگئی۔ زندگی اور مصروف ہوگئی۔ دن بھر صرف کام ہی کام۔ کبھی کبھی سوچتی کہ کیا زندگی یہی ہے؟
لیکن جب شام کو دونوں بچوں کے ساتھ پیاری پیاری باتیں ہوتیں تو محسوس ہوتا کہ واقعی زندگی تو یہی ہے۔ معصوم معصوم سی باتیں، خوب صورت سی ہنسی، اس کی ساری تکان ختم ہوجاتی۔
بچے بڑے ہونے لگے اور پھر ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گڑیا نے جیسے ہی چوبیسویں سال میں قدم رکھا اس کی شادی ہوگئی اور پھر جلد ہی رمیز کی دلہن بھی گھر آگئی۔ اور تب اس نے سکون کی سانس لی۔ اب اس کے پاس اطمینان بھی تھا اور وقت بھی۔ اب وہ چاہتی تھی کہ امّی کے پاس جائے، ان سے جی بھر کی باتیں کرے۔ بڑی آپی، چھوٹی آپی، بھائی جان سبھی کے ساتھ پرانے دنوں کی طرح خوب سارا وقت گزارے۔ پرانی سہیلیوں سے بھی ملے۔ اس کی دونوں سہیلیاں مرزاپور ہی میں رہتی تھیں کیوں کہ ان کی شادی وہیں ہوئی تھی۔ چھوٹی آپا کی شادی بھی مرزاپور ہی میں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ امّی کے گھر پر اکثر آجایا کرتی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ زیادہ تر امّی کے گھر پر ہی رہتی تھی۔ دولھے بھائی کی نوکری دوبئی میں تھی۔ ایک بیٹا تھا جو مرزاپور ہی کے کالج میں کامرس کا لکچرر تھا۔ بڑی آپی کی شادی مرزاپور سے تھوڑی دور پر واقع ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ صابر بھائی کا اپنا بزنس تھا۔ لیکن جب میری شادی بھی ہوگئی تو بھائی جان نے یہ فیصلہ کیا کہ بڑی آپی کو گھر بلائیں گے۔ بس بھائی جان نے فوراً ہی بڑی آپی پر یہ حکم صادر کردیا کہ تم یہیں رہنے کے لیے آجاؤ، میں صابر سے بات کرلوں گا۔ بھابی جان نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ امّی کی تو جیسے دلی خواہش تھی۔ بس بڑی آپی رہنے کے لیے آ گئیں۔ وہ اپنے گاؤں بھی کبھی کبھی جایا کرتی تھیں۔
اچانک ٹرین نے ایک جھٹکا لیا اور دھیرے دھیرے رینگنے لگی۔ لیکن اس کی یادوں کے پرندے بہت تیزی سے اڑے جارہے تھے۔ ٹرین کی رفتار اب تیز ہو گئی تھی۔ اس نے کھڑکی کے باہر کا جائزہ لیا۔ سامنے ہی آسمان پر چاند اسے دیکھ کر مسکرارہا تھا جیسے کہ چاند کواس کی یادوں کی چاندنی اچھی لگ رہی تھی۔ وہ بھی مسکرانے لگی۔ چاند اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور پھر اسے نیند آگئی۔
ٹرین کے رکتے ہی اس کی آنکھیں کھل گئیں۔ کھڑکی سے ہی اسے بھائی جان کھڑے نظر آ گئے۔ اور وہ جلدی جلدی ٹرالی بیگ کو گھسیٹتے ہوئے اتر گئی۔ راستے میں بھائی جان سے لگاتار باتیں کیے جارہی تھی۔ سوالوں کا انبار تھا اس کے پاس۔
”اب تک بڑی نہیں ہوئی شاذی: بچوں کی طرح خوش ہورہی ہو۔”
وہ جھینپ کر چپ ہوگئی۔
تھوڑی دیر بعد وہ گھر میں تھی۔ دونوں آپی، امّی، بھابی سب اس کے پاس تھیں۔ شاذی کی باتیں ختم ہی نہیں ہورہی تھیں۔ بہت اچھا لگ رہا تھا۔
”بس باتیں ہی کیے جاؤگی بیٹا۔۔۔۔فریش ہو لو۔۔۔۔بھوک بھی لگی ہوگی۔”
”جی امّی” وہ مسکرا دی۔”بھوک تو ہے!”
تھوڑی دیر میں ہی اس نے پورے گھر کا چکّر لگا ڈالا۔ بڑے غور سے درودیوار دیکھتی رہی۔ سب کچھ اسے بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔ جب وہ آنگن میں آئی تو چونک گئی۔ “امّی، یہاں پر تو آم کا درخت تھا: کیا ہوا؟”
”ہاں بیٹا: اسے کاٹنا پڑا۔ ادھر کمرے جو بنوانے تھے۔”
”اوہ امّی۔ کیوں کٹوادیا۔ آپ کو یاد نہیں، ہم سب اس پر جھوٗلا ڈالا کرتے تھے۔”
”مجھے یاد ہے سب۔ لیکن کمرے بنوانے بھی ضروری تھے۔ اور اب کیا اس عمر میں جھوٗلا ڈالو گی؟”
”جھوٗلا تو نہیں ڈالوں گی۔ لیکن۔۔۔” اس کی آواز کم زور ہوگئی اور آنکھیں نم۔
شام کو جب وہ گھر سے باہر نکلی تو۔۔۔
یہاں دائیں طرف تو ایک میدان ہوا کرتا تھا اور میدان کی ایک طرف مدرسہ تھا اور مدرسے کے پاس ہی چھوٹا سا کنواں بھی تھا لیکن اب وہاں پر تو نہ مدرسہ تھا اور نہ ہی وہ کنواں۔ اب وہاں پرا یک اسکول بن گیا تھا جو یقیناً ایک اچھی تبدیلی تھی۔ لیکن اس کا دل اداس ہوگیا۔ اس کا بچپن اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ جب وہ سب سہیلیاں ساتھ مل کر مدرسے کے لمبے سے برامدے میں جھوٗم جھوٗم کر عربی اور اردو پڑھا کرتی تھیں۔
”امّی!”
”ہاں بیٹا!”
”کل مجھے آم کے باغیچے میں لے چلیے گا۔”
”باغیچہ؟ کون سا؟”
”آم کا امّی۔ جہاں پر چاچی رہتی ہیں۔ کوٹھی والی۔”
بھائی جان ہنسنے لگے۔
”ہاں ہاں۔ لے چلوں گی اس طرف۔”
جب دوسرے دن وہ ادھر گئی تو اسے کوئی باغیچہ نظر نہیں آیا۔ چاروں طرف اونچے اونچے فلیٹ بن گئے تھے۔ اور اسی فلیٹ میں سے ایک فلیٹ مینو کا تھا۔ نہ کوئی کوٹھی تھی نہ نرگس آپا کا بڑے سے آنگن والا گھر۔ اس کی آنکھیں پرانے دنوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ لیکن یہاں تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ بڑے بڑے فلیٹ، خوب صورت مال، چوڑی چوڑی سڑکیں، بھیڑ اور لوگوں کا ہجوم: کوئی گلی نہیں: کوئی آنگن والا گھر نہیں: کوئی کنواں نہیں: کوئی لمبے سے برآمدے والا مدرسہ نہیں: نہ جانے وہ خوب صورت دن کہاں کھو گئے: یہاں تو اب کچھ بھی نہ تھا۔
”شاذی کیا ہوا؟: میرا فلیٹ اچھا نہیں لگا؟”
وہ چونک گئی۔
”بہت اچھا لگا۔ لیکن۔۔۔سب کچھ کتنا بدل گیا ہے۔ ہے نا؟”
تبھی اسے پرانے گانے کی آواز آئی۔ شاید آئس کریم والا ہے۔
اس نے باہر آکر دیکھا۔ اور پھر یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ وہی آئس کریم کا پرانا ٹھیلا تھا اور گانا بھی وہی بج رہا تھا۔”آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے”
اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔”مینو! دیکھو تو وہی آئس کریم”
اور وہ دوڑتی ہوئی ٹھیلے والے کے پاس جانے لگی جیسے کہ وہاں پر اسے اپنے پرانے دن مل جائیں گے۔ لیکن جاتے جاتے اچانک ہی اس کے قدم رک گئے۔ گانے کی بے ہنگم موسیقی بتارہی تھی کہ یہ وہ گانا نہیں بلکہ اس کی ریمکس (remix)ہے۔
سب کچھ بدل گیا ہے۔ پھر میں کیوں نہیں بدلی؟