فصیح الملک حضرتِ داغؔ دہلوی کا یہ شعر پوری اردو دنیا میں پہنچ چکا ہے:
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ کوئی تعلّی یا مبالغہ آرائی نہیں، بل کہ اُردو زبان کی اہمیت و مقبولیت کی سچی اور حقیقی تصویر کشی ہے۔ اُردو نہ صرف ایشیائی زبانوں میں ممتاز و نمایاں حیثیت رکھتی ہے، بل کہ اپنے علمی و ادبی سرمائے، زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی شرکت اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں بولی اور سمجھی جانے کی وجہ سے ایک عالمی زبان بن چکی ہے۔ آپ عرب، خلیجی ممالک، یورپ، امریکا، ملیشیا اور سنگاپور کہیں بھی چلے جائیے، آپ دیکھیں گے کہ وہاں کی اپنی مقامی یا علاقائی زبانوں کے بعد سب سے زیادہ اُردو زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہر علم و فن او ہر شعبۂ زندگی کی کتابیں اُردو میں موجود ہیں اور ان میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ اِس عظیم و وسیع زبان کی تمام تر اہمیت، ہر دل عزیزی اور مقبولیت کے باوجود اس کے تعلیمی و تدریسی مسائل پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں جو کام ہوا ہے، اس کا کوئی تناسب نہیں بنتا ہے۔ اِس پہلو سے مقدار و معیار دونوں اعتبار سے اُردو زبان کا شُعبہ بہت کم زور ہے۔
اُردو کا مزاج عالمی و آفاقی ہے۔ اِسے کسی علاقے یا خطّے میں محدود کر کے اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح یہ ایک عالمی و آفاقی مزاج رکھتی ہے، اسی طرح اس کی تعیینِ قدر کے لیے بھی عالمی و آفاقی زاویۂ نظر درکار ہے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال درست نہیں کہ اُردو میں صرف عربی، فارسی یا بعض مقامی بولیوں کے الفاظ ہیں۔ یہ محض ایک محدود اندازِ نظر ہے۔ اُردو میں تقریباً دنیا کی ہر زبان کے الفاظ موجود ہیں۔ جہاں کی جو زبان جتنی اہم ہے، اُتنا ہی اِس نے اُس سے استفادہ کیا ہے اور اس کی اچھی اور معیاری قدروں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُردو کے حروفِ تہجّی کی تعداد دوسری زبانوں سے زیادہ ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود اِسے کسی دوسری زبان کی نقل یا چربہ نہیں کہا جا سکتا۔ اُردو نے تمام زبانوں سے الگ تھلگ ہو کر آزادانہ طور پر اپنی تعمیر و توسیع کی ہے۔ اس نے بعض مفید اور ضروری الفاظ دوسری زبانوں سے حسبِ موقع لیے ہیں، لیکن اپنی ساخت اور مزاج کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ کسی زبان سے استفادہ اور چیز ہے اور اس کی نقل یا تتبّع بالکل دوسری چیز۔ اُردو کو کسی زبان کی نقل یا اس کے چربے سے تعبیر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔
لفظ و معنیٰ، واحد و جمع، تذکیر و تانیث اور وضاحت و بلاغت کے سلسلے میں بھی اُردو کا اپنا الگ مزاج اور رویّہ ہے۔ اس کا وہ مزاج اور رویّہ بھی اُسے دوسری زبانوں سے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔ مثلاً عربی کا لفظ ‘اہلیہ’، عربی میں اس کے معنیٰ صلاحیت کے ہیں، جب کہ اُردو میں ہم اِسے ‘بیوی’ کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں، ‘بساط’ عربی میں ایک قسم کے فرش کو کہتے ہیں، جب کہ اُردو والے اِسے حیثیت کے معنیٰ میں استعمال کرتے ہیں۔ طاہر تلہری کا بہت مشہور شعر ہے:
میں کیا، مری بساط ہی کیا، بے اساس ہوں
جس کو کوئی پہن نہ سکے وہ لباس ہوں
عربی میں ‘اولاد’، ‘ولد’ کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ فرزند یا بیٹے کے ہوتے ہیں۔ لیکن اُردو والوں نے ‘اولاد’ کو واحد کے طور پر استعمال کیا ہے اور جمع کے طور پر اولادوں یا اولادیں استعمال کرتے ہیں۔ مولانا عامر عثمانی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
جو مال و متاعِ دنیا کو تحقیر سے دیکھا کرتے تھے
ان شیر دلوں کی اولادیں، ہیں عاشقِ حسنِ دام و درم
اقبال کا بہت مشہور شعر ہے، جس میں انھوں نے ‘اولاد’ کو واحد کے طور پر استعمال کیا ہے:
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا اِمتحاں مقصود ہے
‘دست’ کے معنیٰ ‘ہاتھ’، ‘گُل’ کے معنیٰ ‘پھول’، ‘چشم’ کے معنیٰ ‘آنکھ’ اور ‘خانہ’ کے معنیٰ ‘گھر’ کے ہیں۔ لیکن اُردو میں اگر کوئی یوں بولے یا لکھے کہ ماں نے اپنے دست سے بیٹے کو کھانا کھلایا، اس کے پاس چمیلی کا گل تھا، رات میری چشم میں درد تھا، حامد اپنے خانے میں موجود تھا تو یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہوگی۔ حالاں کہ قواعد یا لغت کے اعتبار سے اِن جملوں میں کوئی غلطی نہیں ہے۔ لیکن روز مرّہ کے خلاف بولنے اور لکھنے کی وجہ سے یہ جملے فصاحت و بلاغت کی کسوٹی پر بالکل کھوٹے سکّے ثابت ہوں گے۔
اچھی اور صحیح اُردو لکھنے اور بولنے کے لیے محض لغت اور قواعد کو رَٹ لینا کافی نہیں، بل کہ اُردو کے مجموعی مزاج اور ماحول سے واقفیت بھی ضروری ہے۔غالباً 1993 کی بات ہے۔ میں کسی ضرورت سے مرکزی مکتبے کے منیجر کے پاس گیا تو وہاں دو درجن سے زیادہ مذہبی کتابوں کے ایک مصنّف بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں مکتبے سے شائع شدہ نئی ڈائری تھی۔ وہ منیجر مکتبہ پر بُری طرح برس رہے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ اُن کا آہنگ بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا تھا۔ موصوف فرما رہے تھے کہ یہ مکتبے کو ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔” اس طرح سے بہت جلد مکتبے کا بھٹّا بیٹھ جائے گا۔” ان کا سارا غضب و غصّہ اس سال کی ڈائری میں شائع شدہ مولانا عامر عثمانی کی غزل کے اس مطلع پر تھا:
ترا ایک ہی ستم ہے، ترے ہر کرم پہ بھاری
غمِ دو جہاں سے دے دی، مجھے تو نے رستگاری
اُن کا اعتراض پہلے مصرعے کے لفظ ‘ستم’ پر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اِس میں اللہ تعالیٰ کو ‘ستم گر’ کہا گیا ہے، جو سراسر کفر ہے۔یہ ڈائری منظرِ عام پر آتے ہی دلّی اور دلّی سے باہر کے تمام مسلمان مکتبے پر یلغار کر دیں گے۔ مکتبہ برباد ہو جائے گا۔ ان کی یہ بھی ہم دردانہ رائے تھی کہ چوں کہ ابھی ڈائری نئی چھپ کر آئی ہے، لوگوں کی نگاہوں سے نہیں گزری ہے، اس لیے مناسب ہوگا کہ اِس شعر پر چینپی لگوا دی جائے۔ اِسی طرح کا ایک دوسرا واقعہ سنانا بھی دل چسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یہ تقریباً بیالیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں دیوبند میں دفتر تجلّی میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ ملازمین کے آنے میں کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی تھی۔ اک عالم و فاضل میرے پاس آئے اور شاعری سے متعلق گفتگو چل پڑی۔ برسبیلِ تذکرہ علّامہ اقبالؔ کا ذکر آ گیا۔ علّامہ کا نام آتے ہی وہ صاحب چراغ پا ہوگئے۔ فرمایا: آپ شرابیوں، کبابیوں کا حوالہ دیتے ہیں، یہ سراسر فسق ہے۔ میں نے عرض کیا کہ میرے عزیز! یہ تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان کی کسی بات سے اختلاف ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم اپنے اختلاف میں حق بہ جانب ہوں۔ لیکن اقبالؔ جیسے شخص کو شرابی، کبابی کہنا بڑی جرأت کی بات ہے۔ کم از کم آپ جیسے عالم و فاضل شخص کے لیے یہ رویّہ قطعی مناسب نہیں۔ لیکن میری اِن معروضات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا۔ انھوں نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے فرمایا: یہ بات میں ظن و گمان کی بنیاد پر نہیں، بل کہ معتبر شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ وہ اسی وقت میرے پاس سے اٹھ گئے، تقریباً پون گھنٹے کے بعد پھر تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں ادارۂ شہادتِ حق دہلی کی مطبوعہ کتاب ‘تلاشِ اقبال’ تھی۔ یہ کوئی مستقل تصنیف نہیں، بل کہ اقبال سے متعلّق مختلف اربابِ قلم کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر خالد حامدی مرحوم اس کتاب کے مرتّب ہیں۔ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی ایک مضمون اُس میں ہے۔ انھوں نے فہرستِ مضامین کی مدد سے مولانا مودودیؒ کا مضمون میرے سامنے کرتے ہوئے فرمایا: ”لیجیے پڑھ لیجیے! میں نے اقبال کو شرابی بے بنیاد نہیں کہا۔” میں نے حیرت و استعجاب کے ساتھ مضمون پڑھنا شروع کیا۔ انھوں نے بڑے فاتحانہ انداز میں اپنے نشاں زد مقام پر میری توجّہ مرکوز کرائی۔ وہ پوری عبارت یوں تھی:
”سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی، جو ہمارے نوجوان انگریزی یونی ورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ، یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ اُنھوں نے بھی پڑھا تھا۔ اور ان فنون میں وہ مبتدی نہ تھے، بل کہ فارغ التّحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفے میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا، جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفہ تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، مرحوم اس کے سمند رپیے بیٹھا تھا۔” (ص: 15)
ان کے نزدیک اقبالؔ کے شرابی ہونے کی شہادت عبارت کی آخری سطر ”جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، مرحوم اس کے سمند رپیے بیٹھا تھا۔” سے ہو رہی تھی۔
جن دو واقعات کا میں نے ذکر کیا، ان میں اُن دونوں اہلِ علم دوستوں نے جو باتیں کہیں اُنھیں کسی شرارت یا بدنیتی پر نہیں محمول کیا جا سکتا۔ دونوں نے جو کچھ کہا، بر بنائے اخلاص کہا۔ لیکن ان کا وہ اخلاص اردو زبان و ادب کے مجموعی مزاج اور ماحول سے عدم واقفیت کا مظہر تھا۔ اُردو ادب اُن کے تعلیمی نصاب میں کبھی شامل نہیں رہا۔ اُن کی زبان دانی کا سارا انحصار لُغت پر تھا۔ انھوں نے صرف اور صرف لغت کو اپنا استاذ و رہ نما بنایا تھا۔ جب کہ تشبیہات و تعبیرات کے معاملے میں مجرّد لغت کو کافی نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اُردو کی سب سے بڑی کم نصیبی یہ ہے کہ جس کے اندر ذرا سی بھی اُردو میں نوشت و خواند کی صلاحیت آئی، وہ اپنے کو اُردو زبان و ادب کا عالم و ماہر سمجھنے لگتا ہے۔ ہمارے مدارس کے فارغین اور یونی ورسٹیوں کے ڈگری یافتگان بھی اس سلسلے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان میں ہر شخص اپنے کو اُردو تہذیب و ثقافت کا امین خیال کرتا ہے۔ کسی سے کچھ سیکھنے یا کسی کے سامنے زانوے تلمّذ تہہ کرنے کو کسرِ شان سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں نے مدرسے سے سندِ عالمیت و فضیلت حاصل کر کے یا کسی یونی ورسٹی سے گریجویشن یا پوسٹ گریجویشن کی ڈگری لے کر اُردو زبان کو سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔ اب تو میں خود معلم اور استاذ ہو گیا۔ مجھے کسی سے سیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے اس رویّے کی وجہ سے نہ پوچھیے کہ وہ کیسے کیسے لطائف کو جنم دیتے ہیں۔ بڑے بڑے مصنفین اور پروفیسروں کو ‘شَخْص’کو ‘شَخَصْ’ (خاے مفتوح کے ساتھ)، ‘اُسْوَہْ’کو ‘اُسوّہ’ (واو مشدّد کے ساتھ)، ‘مُعَزَّز’ کو ‘مُعَزِّز’ (زاے اول مکسور)، ‘تَنَوُّعْ’ کو ‘تَنُوعْ’ اور ‘مُتَنَوِّعْکو’ ‘مَتْنوُعْ’ بولتے میں نے دیکھا ہے۔
ہمیں یہ بات نہ بھولنی چاہیے کہ اُردو محض ایک زبان نہیں، بل کہ ایک تہذیب بھی ہے۔ اپنی اسی تہذیب کی وجہ سے یہ ہر طبقے اور ہر ماحول میں پسند کی جاتی ہے۔ اسی کی وجہ سے علم اور فلم ہر جگہ اسے ہر دل عزیزی حاصل ہے۔ اِسے محض ڈکشنریوں، کلاسوں اور کتابوں سے نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ اس کے لیے اُن اساتذہ کی ضرورت ہے، جنھوں نے زبان و تہذیب کے حصول میں اپنی زندگیاں صرف کی ہیں۔ جنھوں نے روزی روٹی کے مسئلے سے بلند ہو کر، سندوں اور ڈگریوں کی پروا کیے بغیر زبان و تہذیب کے عالموں اور رمز شناسوں کی جوتیاں سیدھی کر کے اِسے حاصل کیا ہے۔ باذوق اور مخلص معلم کے بغیر اُردو کی ڈگری تو حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن اُردو زبان و تہذیب کو حقیقی معنوں میں نہیں سیکھا جا سکتا۔ کسی بھی زبان و تہذیب کا حقیقی استاذ و معلم وہی قرار پائے گا، جو اس کی تدریس کو محض منصبی فریضہ نہیں بل کہ اپنا محبوب مشغلہ خیال کرتا ہو۔ اس کے اندر تنقید و تحقیق سے بھرپور لگن ہو، وہ لفظوں کے معنیٰ، ان کے محلِ استعمال، ان کے تلفظ اور ان کے املے کا اچھا ذوق رکھتا ہو اور اِس ذوق کو دوسروں تک منتقل کرنے کی بھی اس کے اندر لگن ہو۔
جامعات کے بعض اُردو اساتذہ کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ اُردو میں حروفِ تہجی کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے اُردو کی تعلیم و تدریس میں دشواریاں پیش آتی ہیں۔ اُن کا یہ اعتراض بھی اُردو اور اس کے عالمی مزاج سے عدم واقفیت کا مظہر ہے۔ ایسی صورت میں یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اِس کی ترویج و تربیت میں کس حد تک مفید ہو سکتے ہیں۔ یہ بات اِس حد تک تو قابل تسلیم ہے کہ دوسری زبانوں کے مقابلے میں اُردو کے حروفِ تہجّی کی تعداد زیادہ ہے۔ لیکن جب ہم اُردو کے مزاج اور اس کی وسعت کو سامنے رکھ کر غور کریں گے تو اِس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہ ہوگا کہ حروفِ تہجّی کا زیادہ ہونا اُردو کی خامی یا نقص نہیں بل کہ اس کی خوبی اور وصف ہے۔ جو زبان مختلف زبانوں کے آمیزے سے بنی ہوگی، جس کی تشکیل و توسیع میں دوسری زبانوں سے استفادہ کیا گیا ہوگا، یا جس میں مختلف علاقائی اور مقامی بولیوں کو شامل کیا گیا ہوگا، اس کے حروفِ تہجّی دوسری زبانوں سے یقیناً زیادہ ہوں گے اور ہونے چاہییں۔ اِس سے اس کے اندر آسانیاں اور سہولتیں پیدا ہوتی ہیں اور یہی چیز اُس کے دامن کو وسیع کرتی ہے۔ یہ اس کا عیب نہیں بل کہ ہُنر ہے اور یہی ہُنر اسے تمام عداوتوں اور سازشوں کے باوجود اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔
یہ ایک سخن گسترانہ بات تھی جو مضمون کے مقطعے میں آگئی تھی۔ لیکن بات بے موقع نہ تھی۔ اُردو کی عالمی مقبولیت، لسانی وسعت اور موجودہ عہد میں بڑھتی ہوئی اس کی معنویت و افادیت کا تقاضا ہے کہ ہر سطح پر اس کی تدریس، تعلیم اور ترویج پر حکیمانہ و دانش مندانہ کوششیں کی جائیں۔ اس کے مجموعی ماحول اور اس کے منفرد لسانی مزاج کے شایانِ شان ایسے اساتذہ اور معلمین کی جستجو کی جائے، جو عصری پیشہ ورانہ مزاج سے ہٹ کر اِسے اس کے مزاج اور لسانی انفرادیت کے ساتھ پڑھانے اور گھر گھر پہنچانے کا جذبہ اور صلاحیت رکھتے ہوں اور زبان و بیان کی نزاکتوں، محاورات و روزمرّہ کی باریکیوں، لفظ و معنیٰ اور صحیح و درست تلفظ کا ان کو پورا شعور و ادراک ہو۔ اس لیے کہ یہی اُردو کی شناخت ہے۔ اور اِسی سے ہندستان بل کہ سارے جہاں میں اس کی دھوم بھی ہے۔