اُردو ادب میں تصوف اور بھکتی کی روایت

ستمبر 2022

تصوف اُردو شاعری کا وصفِ خاص رہا ہے۔ اُس دور میں جب کہ معاشرے اور معاشرت پر مذہب کی گرفت زیادہ تھی، تصوف کو تو اُردو شاعری میں قدرِ اوّ ل کی حیثیت حاصل تھی۔ نہ صرف ان شاعروں نے ‘تصوف’ جن کا ذوق بھی تھا اور زندگی بھر اپنے کلام کو تصوف سے مزین کیا، بلکہ ایسے شاعروں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو بقول شیخ علی حزیںؔ “تصوف برائے شعر گفتن خوب اَست”کے قائل تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں جب عربوں نے سندھ اور ملتان پر قبضہ کرلیا تو سیاسی غلبے کے علاوہ اسلامی فکر کو بھی برصغیر میں داخلے کی راہ مل گئی۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندؤں کا فکر و فلسفہ برہمن اور بدھ مت کے جزر و مد اور تصادم کی متعدد منزلیں طے کر چکا تھا اور اب ویدوں سے اُپنشدوں کی طرف نہ صرف مراجعت کر رہا تھا بلکہ فکر و عمل کے اعتبار سے یکسر تصوف بن چکا تھا۔
صوفیائے کرام کی تحریک معنویت کے لحاظ سے بھکتی تحریک کے مقاصد سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترک وطن کرکے ہندستان میں آنے والے صوفیائے کرام کے پیش نظر ایک مقصد تبلیغ اسلام بھی تھا۔ بلاشبہ اس کے لیے صوفیا نے بالواسطہ طریق اختیار کیا اور ہندو اور مسلمان کا امتیاز کیے بغیر سب لوگوں کو یکساں طور پر بلند تر روحانی زندگی کا پیغام دیا۔ ایک ہندو کے قبول اسلام سے صوفیا کو جتنی خوشی ہوتی شاید اس سے زیادہ ایک مسلمان کے ترک گناہ سے ہوتی تھی۔ اس کے باوجود صوفیا کو اپنا تبلیغی مقصد حاصل کرنے کے لیے مجاہدے اور محاربے کی فضا کا سامنا بھی کرنا پڑا، لیکن ان فقیروں نے اسلام کا عملی پیغام لوگوں تک پہنچانے اور قلوب میں تبدیلی لانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
اسلام کے غنی مزاج درویشوں نے دربار عام لگائے، عوام کی زبان میں شاعری کی اور محبت اور خلوص سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیا۔ ہندستان میں صوفیا کی تحریک فکر اور ادب کے دو زاویوں سے اہمیت رکھتی ہے۔ اوّل ہندستان میں مشرقِ وسطیٰ کے تصوف کا فروغ اور دوم مقامی زبانوں کی ترقی اور ان کے اشتراک و امتزاج سے ایک نئی زبان کی افزائش، صوفیا چوں کہ انسان کے باطن سے زیادہ سروکار رکھتے تھے اس لیے ان کے دروازے مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے کھلے تھے۔انسانی ہم دردی، خلوص اور محبت ان کا اصلی جوہر تھا۔ لیکن دلوں پر حکم رانی کرنے سے پہلے ہم زبانی لازم ہے۔ ہم زبانی کے بعد ہم خیالی پیدا ہوتی ہے۔ چناں چہ وعظ و تلقین اور رشد و ہدایت کے لیے صوفیائے کرام نے اپنی علمی فضیلت کو راستے کی دیوار نہ بنایا بلکہ عوام سے انھی کی کھردری بولی میں بات چیت کی ابتدا کی۔ ظاہر ہے یہ صوفیا عوام ہی کی زبان میں گفتگو کرتے ہوں گے ، چناں چہ ہمیں اس عہد میں کچھ ایسے فقرے بھی ملتے ہیں جن میں اُردو کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ یہی پُرانی اُردو دراصل صوفیائے کرام کی زبان تھی۔ اسی کی مدد سے ان شاہانِ بے نظیر نے عوام کے دلوں پر حکومت کی۔ یہی وجہ ہے کہ اِن صوفیائے کرام کے ملفوظات میں اس بولی کے ایسے خوب صورت جملے دیکھنے کو ملتے ہیں، جو وہ عام گفتگو میں استعمال کرتے تھے۔
”اے برہان الدین ساڈھی دھیہ کہہ کیا پسندا ہے۔”
”منجھ مت بلاؤ۔”
”نہوے آوے ے جائے لالہ کوں تیرے بارے۔”
”سید محمد اوس نہ پیتائی۔” [۱]
یہی جملے ابتدائی اُردو کے قدیم ترین نمونے ہیں جو مراٹھواڑہ دکن کی سرزمین پر ملتے ہیں۔
معروف تاریخ داں ہارون خان شیروانی کے مطابق:
”صوفیائے کرام کا عوام سے راست رابطہ اور اُن کے سکھ دکھ میں شرکت کی شدید خواہش نے ترسیل کے ایک نئے ذریعے اُردو کو فروغ دیا۔” [۲]
صوفیائے کرام نے اس سر زمین پر نہ صرف فکری سماجی و تہذیبی سطح پر ایک انقلاب پیدا کردیا بلکہ ایک نئی لسانی تہذیب کی داغ بیل بھی ڈالی۔ یہ نئی زبان اپنے آپ میں ایک مکمل تہذیبی ڈھانچے میں ڈھل رہی تھی، اسے کبھی دکنی کہا گیا تو کبھی ہندی، تو کبھی اُردوئے قدیم کہا گیا۔ اس زبان کا اصل روپ زبان سے زیادہ بولی کا تھا، کیوں کہ مختلف طبقوں کے درمیان یہی رابطے کی کڑی تھی جو عوامی زبان کے طور پر مستعمل تھی۔ صوفیائے کرام اس نئی زبان کی داغ بیل کا باعث بنے اور فاتحین اس کی تیز رفتار ترقی کا ذریعہ ثابت ہوئے۔ صوفیائے کرام ملک کے جس حصے میں بھی گئے، سب سے پہلے اس حصے کی زبان کو اپنایا اور وعظ و تلقین کی مجالس میں بعض ایسے الفاظ بھی پیش کردیے جو پہلے صرف فارسی یا عربی کا حصہ تھے۔ چناں چہ قدیم اُردو کے جو نمونے سامنے آئے ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ مخلوط زبان پندرھویں سے سترھویں صدی عیسوی تک پورے ہندستان میں رائج تھی اور اس کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام نے بہت حصہ لیا تھا۔
متذکرہ بالا مخلوط زبان کے ابتدائی نمونے زیادہ تعداد میں دستیاب نہیں، تاہم چوں کہ گفتگو کی زبان طویل عرصے کے بعد ترقی کرکے تحریر کی زبان بنتی ہے۔ اس لیے تحریر کے جو نمونے اب تک ملے ہیں ان سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس زبان میں بول چال کا رواج بہت عرصہ پہلے پڑ چکا تھا۔ حضرت فرید شکر گنجؒ کے زمانے میں اس زبان نے ترقی کی جس منزل کو پا لیا تھا، اس کی صورت مندرجہ ذیل ریختہ سے ظاہر ہوتی ہے:
وقت سحر وقت مناجات ہے
خیز دراں وقت کہ برکات ہے
نفس مبادا کہ بگوید ترا
خسپ چہ خیزی کہ ابھی رات ہے
(اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ۔ ص نمبر ۸)
چودھویں صدی اور اس کے بعد جن مشائخ نے اس زبان میں شاعری کی ان کے کلام کے چند نمونے:
کالا ہنسا نہ ملا بسے سمندر تیر
پنکھ پسارے یکہ ہرے نرمل کرے سریردرد ہے نہ پیڑ
شیخ شرف الدین یحییٰ منیری
ایسی باتیں کرے گنونتی مورکھ بوجھیں سُدھ
یہی من میں آوے اپنے چھند سو ہی سکھا ویں بودہ
شمس العشاق شاہ میراں جی
جدھر دیکھوں ہے سکھی دیکھوں ہور نکوئے
دیکھا بوجھ بچار میں سبھی آپیں سوئے
شیخ عبدالقدوس گنگوہی
روزے دھر دھر نماز گزاری دینی فرض زکوٰۃ
بن فضل تیرے چھوٹک ناہیں آکیں مکھ میں بات
شیخ بہاؤ الدین باجن
(اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ۔مولوی عبدالحق۔ص نمبر ۸۔)۳۹
شاعری کے برعکس نثر میں یہ زبان زیادہ مائل بہ ارتقا نظر آتی ہے۔ مندرجہ ذیل چند مثالیں ملاحظہ ہوں جن میں زبان مافی الضمیر کا ساتھ پوری طرح دے رہی ہے:
”نبی کہے تحقیق خدا کے درمیان تے ستر ہزار پردے اوجیالے ہور اندھیار کے۔ اگر اس میں تے یک پردہ اُٹھ جائے تو اس کی آنچ تے میں جلوں۔ ہور ایک وقت ایسا ہوتا ہے اور دیکھو بے پردا اندھیارے کے اجیالے کے عارفان پر۔”
(خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ۔ معراج العاشقین۔ دکن میں میں اُردو۔نصیر الدین ہاشمی۔ص نمبر ۵۱)
”سنو اے مسلمانو! طالبِ خدا کے بوجھو زندگی سہل ہے۔ جیون کا بھروسا نہیں۔
موجب حکم حضرت علی عمل کرو۔ یعنی شتابی کرو۔ نماز وقت کرو توبہ مرنے سون آگے۔ گزرن سون آگے ہور شتابی کرو توبہ مرنے سون آگے۔”
(دکن میں اُردو۔نصیر الدین ہاشمی۔۲۰۰۲ء ص نمبر۵۷)
سید محمد اکبر حسینی
”فر موند کہ جس چیز میں ذوق وشوق پاوے اسے ترک نہ دیوے۔”
شیخ وجیہہ الدین
”خدا کہیا تحقیق مال اور پنگڑے (اولاد) تمھارے دشمن ہیں، چھوڑدیو دشمناں کوں اے کیسا غفلت ہے جو اندھلا کیا موت کی یاد تھے تجھے بسرا کر۔”
شمس العشاق شاہ میراں جی
”اللہ کرے سو ہوئے کہ قادر توانا سوئے کہ قدیم القدیم اس قدیم کا بھی کرنھار سہج سہج سو تیرا ٹھار و سہج ہوا بھی توج تھے بار۔جدھاں کچھ نہیں بھی تھا تہیں، دوچار شریک کوئی نہیں۔ ایسا حال سمجھنا خدا کوں جس پر کرم خدا کا ہوئے۔”
شاہ برہان الدین جانم
(اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ۔مولوی عبد الحق۔ص نمبر ۲۶؍ ۴۵؍ ۴۹)
ہر چند صوفیائے کرام کے یہاں ادب کی تخلیق مقصود بالذات نظر نہیں آتی اور ان کا خطاب براہ راست عوام سے ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صوفیا نے ایک غیر ادبی زبان کے فروغ کے لیے راستہ ہم وار کیا۔ ان کی نظم و نثر کا مقصد چوں کہ اصلاحی اور تبلیغی تھا۔ اس لیے انھوں نے دقیق مسائل چھیڑنے سے گریز کیا اور عوام کو تحریر و تقریر کی سادہ زبان سے ہی آشنا کیا۔ نظم و نثر کے یہ نمونے داخلی طور پر توانا نہیں اور ان پر مقامی اثرات بھی نمایاں ہیں تاہم ان میں خلوص اور تاثیر کی کمی نظر نہیں آتی اور یہ سادگی کے باوصف دل پر اثر کرتے ہیں۔ چناں چہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ صوفیا کی تحریک نے اسلامی تصوف کو ہندستان میں ایک فکری اور عملی لہر کی صورت میں رائج کیا اور اُردو زبان کو عوام تک پہنچا کر قابل قدر خدمات انجام دیں۔ صوفیا کی تحریک نے اُردو کے ابتدائی زمانے میں نئے اسالیبِ بیان کو فروغ دیا اور مختلف مقامی بولیوں کے ادغام سے اس کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس زبان کا کوئی ایک مرزبوم تلاش کرنا ممکن نہیں رہا۔ صوفیا کی تحریک نے ہندستانی مزاج کو عربی اور فارسی کے تہذیبی لہجے سے اولاً الفاظ کے استعمال سے اور دوم تراجم کے ذریعے آشنا کیا۔
اس تحریک کی ایک عطایہ بھی ہے کہ اس نے مقامی بولیوں کو عربی رسم الخط سے مانوس کرایا۔ ایک مشترکہ رسم الخط وجود میں آیا تو اُردو زبان نہ صرف ہندستان کے گوشے گوشے میں سمجھی بولی اور لکھی جانے لگی بلکہ اس کے اثرات بیرون ہندستان بھی جا پہنچے۔ مجموعی اعتبار سے صوفیائے کرام کی تحریک اُردو کی نشوونما کے زمانے کی ایک اہم تحریک تھی اور اس کی اساس پر اُردو زبان نے آنے والی صدیوں میں ارتقا کی لاتعداد منازل طے کیں۔
لغوی اعتبار سے بھکتی کا مطلب طاعت و بندگی اور انتہائے عقیدت و محبت ہے، لیکن ہندو مذہب کی کتابوں میں جن میں بھگود گیتا اور شریمد بھگود بہت اہم ہیں، بھکتی کی جو تعریف کی گئی ہے وہ محبوب سے وصال کے اس والہانہ اور لافانی جذبے سے عبارت ہے جس کی آخری منزل خود سپردگی اور فنا ہے۔
ہندستانی تاریخ میں تحریک کی صورت میں بھکتی کی ابتدا نرنارائن مت اور ساتوت مت سے ہوئی۔
پہلا مت شجاعت اور عمل صالح پر اصرار کرتا ہے اور دوسرا مت پریم اور انتہائے عقیدت پر۔ بھکتی تحریک کا محرک عقل و استدلال کے بوئے ہوئے کانٹوں سے نجات اور خدا کو قائم بالذات قرار دے کر اس کی عقیدت و محبت میں محو ہوجانا تھا۔ اس کے بعد کا عہد “عہد وسطی”کے نام سے یاد کیا گیا ہے، وہ ساتویں صدی عیسوی تک اور ایک مزید تقسیم کے مطابق مشرقی وسطی عہد (جس کا نام بھکتی کال بھی ہے) بارہویں صدی عیسوی سے آخر تک اور شمالی وسطی عہد کے نام سے تیرہویں صدی عیسویں سے آخر تک پھیلا ہوا ہے۔ مشرقی وسطی عہد سماجی تہذیبی انتشار اور مذہبی اعتبار سے جمود کا عہد ہے جب کہ شمالی وسطی عہد میں ہندستانی سماج نے اپنی بکھری ہوئی مذہبی اور اخلاقی قوتوں کو مجتمع کرنے کا کام شروع کیا اور اس طرح اس کے تن مردہ میں جان پڑنی شروع ہوئی۔ یہاں یہ حقیقت خصوصیت سے یاد رکھنے کی ہے کہ جنوبی ہند میں مسلمان ساتویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں نہ صرف بڑی تعداد میں آباد ہوئے بلکہ اپنے عقیدہ و عمل اور کردار و معاملات سے حکم راں اور عوام دونوں کو یکساں طور پر متاثر بھی کرتے رہے اور اسی خطے اور عہد یعنی جنوبی ہند میں ہی آٹھویں صدی کے آخر میں شنکر آچاریہ نے زبردست قوت تاویل سے ہندوؤں کے تمام فلسفیانہ نظریوں اور مذہبی عقیدوں کو ایک ہی نظام فکرو فلسفہ میں شامل کرنے کے ساتھ لاثنویت (ادویت) کے نام سے وید انتی مذہب کی ایسی مدلل تفسیر لکھی جس میں ہندستانیوں کے اصل طریق کی روح جلوہ گر ہوگئی۔ اس کے علاوہ بھکتی تحریک بھی جو ابتدا میں بھکتوں کی شخصی قلبی واردات تھی، رامانج آچاریہ کے فلسفے کی شکل میں پایہ تکمیل کو پہنچ کر ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھنے لگی۔ موج تہہ نشین کی شکل میں اس کی روح بھی وہی ذہنی روحانی بیداری تھی جو اسلام اور ہندستان کے سابقے سے پیدا ہوکر پروان چڑھی تھی۔
رامانج کی تعلیم سادہ تھی لیکن اس نے سنسکرت زبان کو وسیلہ بنایا اور ذات پات کی تمیز برقرار رکھی۔
رامانج چوں کہ اعلیٰ ذات کا ہندوتھا اس لیے اس نے اونچی ذات کے لوگوں سے ہم کلام ہونا پسند کیا۔چناں چہ رامانج کے سلسلے کی بھکت مالا میں دیو اچاریہ،ہری نند،راگھونند اور رامانند جیسے لوگ پیدا ہوئے۔رامانند کے بھکتوں میں سب سے زیادہ اہم بھکت کبیر داس ہے۔مذہبی لحاظ سے کبیر داس کی شخصیت خاصی متنازعہ ہے۔کبیر داس آزاد فکر اور آزاد منش موحد تھے،انھوں نے کسی فرقے کو اہمیت دینے کے بجائے پریم اور محبت کے مذہب کو فروغ دیا۔
بھکت کبیر نے ایک ایسی زبان میں شاعری کی جس کی ترقی یافتہ شکل بالآخر اُردو زبان کی صورت اختیار کرنے والی تھی۔ چناں چہ مسٹر بوس نے کبیر کو اس زبان کا پہلا بڑا شاعر کہا ہے اور بقول حافظ محمود شیرانی “ان کی نظمیں اچھی خاصی اُردو کہلائے جانے کی مستحق ہیں۔”کبیر نے ہندو اور مسلم تصورات کو متصادم کرنے کے بجائے انھیں باہم مدغم کیا تھا۔ ان کی شاعری میں اُردو اور فارسی کا امتزاج موجود ہے اور بعض ترجمے تخلیقی شان بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر حافظ شیرازی کہتے ہیں:
ہر کسے پنچ روزہ نوبت اوست
اور کبیر اس کا آزاد ترجمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
کبیر نوبت اپنی دس دن لیہو بجاے
( پنجاب میں اُردو۔حافظ محمود شیرانی۔ص نمبر۱۴۷)
کبیر داس کی شاعری میں معنی آفرینی کا عنصر سادگی اور پر کاری کے ساتھ پیوست ہے اور پریم اور محبت کا درس جب شعری پیکر میں ڈھلتا ہے تو دل پر مسیحائی کا اثر کرنے لگتا ہے۔
کبیر سریر سرائے ہے کیا سوئے سکھ چین
سو انس نگاراکوچ کا باجب ہے دن رین
مائی کہے کمہار کوں تو کیا روندے موہیں
ایک دن ایسا ہوو یگا میں روندونگی توہیں
(پنجاب میں اُردو۔حافظ محمود شیرانی۔ص نمبر۲۰۶)
کبیرکی زبان اُردو کے اس قدر قریب ہے کہ اسے آج بھی سمجھنا دشوار نہیں۔ کبیر کی تصنیفات میں جو ریختہ مشہور ہیں ان میں ردیف اور قافیے کا استعمال بھی ہوا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبیر نے فارسی شاعری کے اثرات کو خندہ پیشانی سے قبول کیا تھا۔
سنتا نہیں دھن کی خبر ان حد باجا باجتا
رسمند مندر گا جتا باہر سنے تو کیا ہوا
قاضی کتابیں کھوجتا کرتا نصیحت اور کو
محرم نہیں اس حال سے قاضی ہوا تو کیا ہوا
(پنجاب میں اُردو۔حافظ محمود شیرانی ص ۲۱۲ )
اس لحاظ سے کبیر محض بھکتی تحریک کا رہ نما ہی نہیں بلکہ صحت مند ادبی تحریک کا نقطہ آغاز بھی ہے اور اس نے جہاں نچلے پست طبقے کو بلندی کی طرف مائل کیا وہاں ایک غریب زبان کو بھی تونگری عطا کرنے کی کوشش کی۔ جنوبی ہند میں رامانج کی بھکتی تحریک نے مقبولیت حاصل کی تھی اور اسے کبیر جیسا عوامی رہ نما ملا تھا، مگر شمال میں یہ تحریک اپنے اثرات گرو نانک جی کے ذریعے پھیلانے لگی۔ نانک صاحب کی تعلیمات میں کبیر کا پرتو صاف دکھائی دیتا ہے اور گرو گووند سنگھ نے تو اعتراف کیا ہے کہ: کبیر پنتھی اب بھیو خالصہ
یعنی کبیر پنتھی ہی اب خالصہ بن گیا ہے۔ نانک صاحب نے اپنے باطن کی آنکھ کسی ایک مذہب کے مشاہدے کے لیے وقف نہیں کی، بلکہ حق کے لیے انھوں نے ہر در کی جبین سائی کی اور محبت، صلح اور آشتی کا رویہ اختیار کیا۔ نانک صاحب چوں کہ اپنا پیغامِ حق شمالی ہند میں پھیلا رہے تھے اس لیے انھوں نے اس خطے کی زبان پنجابی کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ تاہم ان کے بیش تر پنجابی کلام پر اُردو زبان کا اثر و رنگ صاف نظر آتا ہے۔ بقول ڈاکٹر جمیل جالبی:
”گروگرنتھ میں اُردو زبان کی جو شکل و صورت ملتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے خیالات کی تبلیغ کے لیے اس زبان کا سہارابھی لیا ہے۔” [۳]
مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں:
نانک ننھے ہور ہو جیسے ننھی دوب
سیئے گھاس چر جائیں گے دوب خوب کی خوب
نانک دُنیا کیسے ہوئی
سالک مت نہ ر ہیو کوئی
بھائی بندھی پیت چکایا
دُنیا کا رن دین گنوایا
(تاریخ ادب اُردو۔ ڈاکٹرجمیل جالبی۔ص نمبر ۴۸)
بھکتی تحریک کے دوسرے نام ور شاعروں میں دادو، چیتنیہ، میراں بائی، سنت تکارام، بھکت سورداس، ودیاپتی، چنڈی داس، نام دیو، پریم نند اور تلسی داس وغیرہ کو بہت شہرت حاصل ہے۔ مراٹھواڑہ کی سیاسی، سماجی، تہذیبی و لسانی تقدیر دکن سے وابستہ رہی ہے۔ دیوگیری یا دولت آباد شمالی ہند کے لیے ایک طرح سے باب الداخلہ کا کام دیتا رہا ہے۔لہٰذا شمال کی طرف سے آنے والی ہوا کا تازہ جھونکا سب سے پہلے یہیں گُل کھلاتا ہے۔ شمال کا سیاسی، سماجی ولسانی پودا سب سے زیادہ بارآور یہیں ہوا، کیوں کہ دکن کی سطح مرتفع کا بالائی علاقہ جغرافیائی طور پر دو تہذیبوں کے سنگم پر واقع ہے اور اسی لحاظ سے یہاں ایک نئی تہذیب کے اُبھرنے کے امکان زیادہ تھے، تاریخ شاہد ہے کہ اس علاقے کو نئی لسانی و سماجی تحریک سے متعارف کرانے والے شمال سے آنے والے فاتحین نہیں بلکہ صوفیائے کرام اور سنت تھے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری تو سنت گیانیشور کو ہی اُردو کا پہلا شاعر تصور کرتے ہیں:
”ہمیں اپنی زبان کے ادبی آثار پہلی بار مراٹھواڑہ میں نظر آتے ہیں، جہاں کا سفر اُس نے بھگتوں کے ساتھ کیا ہے۔ چناں چہ اُردو کے پورے پورے جملے اور فقرے ہمیں پہلی بار بھگتوں کی شاعری میں دیکھنے کو ملتے ہیں اور اُن میں مراٹھی شاعر گیانیشور کو اُردو کا پہلا شاعر کہا جاسکتا ہے۔” [۴]
جس زبان میں شمال میں امیر خسرو (۱۲۵۳ء۔۱۳۲۵ء) اپنی تخلیقی گلکاریاں بکھیر رہے تھے، ٹھیک اُسی عہد اور اُسی زبان میں سنت نام دیو (۱۲۷۰ء۔۱۳۵۰ء) جنوب میں عوامی ادب تخلیق کر رہے تھے۔ اسی لیے نام دیو کو ”مراٹھی خسرو” بلکہ مراٹھواڑی خسرو کہنا بے جانہ ہوگا:
مائی نہ ہوتی باپ نہ ہوتا کرم نہ ہوتا کایا
ہم نہیں ہوتے تم نہیں ہوتے کون کہاں تے آیا
(مراٹھواڑہ میں اُردو غزل۔ڈاکٹر سلیم محی الدین۔ص نمبر۹)
یہ زبان انتہائی صاف شفاف زبان ہے اور برج بھاشا، کھڑی بولی، پنجابی یا دکنی سے ہر طرح سے مختلف زبان بھی ہے۔ لسانیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس زبان پر کسی زبان کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں تو وہ اُردو کے اثرات ہیں۔ یہ صوفیا سب برصغیر کے مختلف خِطّوں میں پیدا ہوئے اور وحدانیت اور پریم و محبت کا پیغام اپنی علاقائی زبانوں میں لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ بھکتی تحریک نے فرد کو سکون، اعتدال اور توازن کی فضا میں روحانی رفعت حاصل کرنے کا سبق دیا۔ اس تحریک کا اساسی مقصد اخلاقی اور اصلاحی تھا۔ بھکتی تحریک نے خدا کے شخصی تصور میں اپنائیت پیدا کی اور کبھی آقا اور غلام، کبھی خاوند اور بیوی، عاشق اورمعشوق کا تعلق ابھارا، اس سے خدا کے تجریدی تصور کو شدید زک پہنچی لیکن تخلیقی اعتبار سے اس تصور نے جذباتی زاویے کو عمدہ کروٹ دی۔ ودیاپتی، میراں بائی اور چنڈی داس کی شاعری نے عورت کے جذبات کو سلگتی ہوئی زبان دے دی، اور یوں گیت کو بالخصوص فروغ حاصل ہوا۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
”بھکتی تحریک کی شاعری بحیثیت مجموعی عورت کی آواز ہے اور اس میں جہاں کہیں مرد کی آواز اُبھرتی ہے، اس پر بھی نسوانیت، لہجے کی غنائیت اور جذبے سے ہم آہنگ رہنے کا رجحان غالب ہے۔” [۵]
برصغیر کی ادبیات کو بھکتی تحریک نے بڑی خوبی سے متاثر کیا اور فارسی، عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں دیسی بولیوں کو اہمیت دی۔ بھکت چوں کہ عوام کے دل میں اُترنا چاہتے تھے، اس لیے ان کی شاعری میں نرمی، لچک، خلوص و محبت کی فراوانی ہے۔ اس شاعری کی ایک اور خوبی اس کا آہنگ اور ترنم ہے، بھکتی تحریک میں موسیقی چوں کہ شجرِ ممنوعہ نہیں تھی اس لیے ان شعرا کے گیت عبادت کا حصہ بن گئے اور لوگوں کے دلوں کو براہِ راست تسخیر کرنے لگے۔ مجموعی طور پر یہ بھکتی تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ جب اُردو زبان تشکیل کے دور سے نکل کر تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنی تو اُس میں اچھے ادب کے فروغ کے آثار بھی نظر آنے لگے۔ چناں چہ مذہبی زاویے سے قطع نظر بھکتی تحریک برصغیر کی ایک اہم ادبی تحریک بھی شمار ہوتی ہے۔ بھکتی تحریک کے مبلغوں کا کلام اگرچہ پورے طور پر اُردو ادب میں شمار نہیں کیا جاسکتا تاہم اُردو زبان کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے یہ کافی معاون ہوتا ہے۔
حواشی:
۱: مراٹھواڑہ میں اُردو غزل۔ڈاکٹر سلیم محی الدین۔ ۲۰۱۳ء ص نمبر ۱۸
۲: سلاطین دکن۔ہارون خان شیروانی۔ص نمبر ۱۳۲
۳: تاریخ ادب اُردو۔ڈاکٹر جمیل جالبی۔جلد اوّل۔۱۹۸۷ء ص نمبر ۴۷
۴: اُردو زبان کی تاریخ۔مرزا خلیل احمدبیگ پہلا ایڈیشن ۱۹۹۵ء ص نمبر ۱۴۴
۵: اُردو ادب کی تحریکیں۔ ڈاکٹر انور سدید۔ ص نمبر ۱۴۰
دکن میں اُردو۔نصیر الدین ہاشمی
اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا حصہ۔ مولوی عبد الحق مرحوم
تصوف اور بھکتی۔شمیم طارق
ہندوستان میں تصوف۔ال احمد سرور۔۱۹۸۷ء
تصوف اور بھکتی کی اہم اصطلاحات۔شمیم طارق ۲۰۱۸ء

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ