ڈرامہ پیش کیے جانے کے لیے لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے کا رشتہ اسٹیج سے ہے یا قلم اور ٹیلی ویژن سے ہے۔ اس میں کسی کہانی یا واقعے کو اداکاروں کے ذریعے ناظرین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
ابتدا میں ڈرامہ تفریح کے لیے کھیلا جاتا رہا۔ دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ یہ خوب سے خوب تر ہوتا چلا گیا۔ اس میں سماجی اور معاشی مسائل کو بھی پیش کیا جانے لگا۔ یہ بات صحیح ہے کہ ڈرامے کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن تحریری طور پر ڈرامہ بہت بعد میں وجود میں آیا۔
انگلینڈ میں ڈرامے کی تاریخ بہت واضح نہیں ہے، البتہ اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جب رومن انگلستان میں رہے تو انھوں نے بڑی بڑی تماشا گاہیں اور اسٹیج تعمیر کیے۔ جب رومن واپس گئے تو ان کی سرپرستی میں چلنے والے تھیٹر بھی واپس چلے گئے۔ گرجا گھر ڈرامے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے پھر بھی یہ گرجا گھر تھے جو انگلستان میں ڈرامے کی واپسی کا سبب بنے۔ پادریوں کو اس کی مقبولیت کا احساس تھا۔ انھوں نے اسی سے استفادہ کیا اور مذہبی افکار کی ترویج کے لیے لوگوں کو تماشے دکھانے لگے۔
اس طرح غیر شعوری طور پر چرچ نے ڈرامے کو بہت تقویت پہنچائی۔ ساتویں صدی سے لے کر گیارہویں صدی تک جو ادبی سرمایہ ہم تک پہنچا ہے وہ عیسائی پادریوں کا کارنامہ ہے۔ یہ دور اینگلو سیکشن ادب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ابتدائی دور کے ڈراموں کو mystry plays اور miracle plays کہتے ہیں۔
Mystery Plays توریت اور انجیل کے واقعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان میں سینٹ اور بزرگ پادری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس دور کے چار مشہور مجموعے چسٹر (Chester) کوونٹری (Coventry) یارک (York) اور ٹاؤنلے (Townley) بہت اہم ہیں۔ یہ ابتدا سے لے کر قیامت تک کے واقعات پر مشتمل ڈراموں کا سلسلہ ہے۔ اس میں ڈرامائی فن کاری کے ساتھ مذہبی سوز و گداز بھی پایا جاتا ہے۔ اسی دور میں اخلاقی ڈرامے بھی وجود میں آئے۔ جن میں توریت اور انجیل کے کرداروں کی جگہ اخلاقی شخصیتیں لائی گئیں۔ اس طرح سے انفرادی کردار نگاری کی بنیاد پڑی۔ اخلاقی ڈراموں میں The castle of perseverance اور Everyman شاہ کار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
رفتہ رفتہ مذہبی ڈراموں کی جگہ اخلاقی ڈرامے نے لے لی اور پندرہویں صدی کے آخر تک آتے آتے معجزاتی ڈرامے (miracle plays) ناپید ہوگئے۔ 1530ء کے بعد نشاۃ ثانیہ (renaissance) کا دور شروع ہوا۔ مذہبیت کے بعد اب دنیاوی زندگی کو اہمیت دی جانے لگی۔ مذہب اور اخلاق کے بعد زندگی اور سماج موضوع بن گئے۔ اٹلی اس دور کی تحریک کا مرکز تھا، یورپ کے دوسرے ممالک ادب، مصوری، سنگ تراشی، موسیقی اور دوسرے فنون میں اس کی نقل کرنے لگے۔ انسانی ذہن کو آزادی دی گئی۔ دوسری طرف علم و فن اور تفریحی مشاغل کو تقویت حاصل ہوئی۔
1550 کے بعد انگریزی ڈرامے نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ اس وقت ڈرامے کی کمپنیاں اور پیشہ ور اداکاروں کی ٹولیاں قائم ہوچکی تھیں۔ یہ ایک شہر سے دوسرے شہر ڈرامے دکھاتے پھرتے تھے۔ کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں کلاسیکی ڈرامے مقبول تھے۔
1561 میں انگریزی کا پہلا المیہ ڈرامہ Gorboduc پیش ہوا۔ تھامس سیکول (Thomas Sackville) تھامس نارٹن (Thomas Norton) اس کے مصنفین تھے۔ اس دور میں مزاحیہ ڈرامے لکھے گئے، جن کو انٹرلیوڈ (interlude) کہا جاتا ہے۔ جان ہے وُڈ (John Heywood) کے انٹر لیوڈ Witty & Witless اور A play of love بہت دل چسپ ہیں۔ اس کے علاوہ The play of weather اور The four P’S اس دور کے اہم ڈرامے ہیں۔
اس دور میں ڈرامے کو شاہی سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ اداکاروں کی اتنی اہمیت تھی کہ وہ ملکہ کے دربار سے وابستہ تھے۔ جان لیلی (John Lyly)، جارج پیل (George Peele)، رابرٹ گرین (Robert Green)، تھامس کڈ (Thomas Kyd) اور کرسٹوفر مارلو (Christopher Marlowe) ان کو یونی ورسٹی وٹس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
انھوں نے ڈرامے کے فن اور اسلوب میں جو جدتیں پیدا کیں وہ اس دور کا ایک نمونہ ہے، جان لیلی کے خاص ڈراموں میں Saphox Phao، Endymion، Midas، Mother Bombie، اور The woman in the moon مشہور ہیں۔ پپل کا پہلا ڈرامہ The arraignment of paris ہے جو دیومالا پر مشتمل ہے۔ اس کا سب سے مشہور ڈرامہ The old wive’s tale ہے۔ یہ ایک رومانی داستان ہے۔
پپل ایک شاعر تھا لیکن اپنے دور کے رواج کے زیر اثر اس نے ڈرامے لکھے۔ رابرٹ گرین ایلزبتھ دور کا ہر فن مولا ادیب تھا۔ Friar Bacon اس کا مشہور ڈرامہ ہے۔ اس میں جادوگروں کو بادشاہوں اور درباریوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ James IV گرین کا آخری ڈرامہ ہے۔
تھامس کڈ کا ڈرامہ Spanish Tragedy دور ایلزبتھ Elizabeth کے شاہ کاروں میں سے ایک ہے جو انگریزی ڈراموں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ The Jew of Malta، Faustus، Tamburlaine اور Edward 2 کرسٹوفر مارلو کے مشہور ڈرامے ہیں۔ Tamburlaine تیمور لنگ پر مبنی ڈرامہ ہے۔ یہ مارلو کا پہلا شاہ کار ہے۔ The jew of malta ایک لالچی اور عیار یہودی کے جذبۂ انتقام کی کہانی ہے۔
Edward 2 پہلی دفعہ تاریخ کو ڈرامے میں پیش کیا گیا ہے۔ مارلو اپنے دور کا بڑا فن کار تھا۔ اس نے نشاۃ ثانیہ کے ڈرامے کو اخلاقی اور تمثیلی ڈرامے سے نکال کر نئے موضوعات اور رزمیہ سے روشناس کیا۔ مارلو اور کڈنے سب سے پہلے نشاۃ ثانیہ کے ڈرامہ نگاروں کو المیے کا شعور دیا۔ انگریزی ڈرامے کی تاریخ میں سب سے منفرد نام شیکسپئر کا ہے۔ حیات اور کائنات کے مطالعے اور انسانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرنے والوں میں شیکسپئر ایک منفرد اور نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس نے تاریخی، رومانی اور المیہ ڈرامے لکھے۔ شیکسپئر کا ڈرامہ Richard 2، Richard 3، Henry 4، Henry 5 انگریزی تاریخ کا رزمیہ کارنامہ ہے۔
رومانی ڈراموں میں A Midsummer Nights Dream شیکسپئر کا شاہ کار مانا جاتا ہے، طربیہ ڈراموں میں As You Like It اور Twelfth Night مشہور ہیں۔ Love’s Labour Dost شیکسپئر کا پہلا طربیہ ڈراما ہے۔ اس کے ڈراموں میں المیہ اور طربیہ عناصر ملے جلے ہوتے ہیں۔ سترہویں صدی کے آغاز میں لکھے گئے Hamlet، Othello، Macbeth، King Lear، Antony & Cleopatra اور Coriolanus شیکسپئر کے مشہور المیہ ڈرامے ہیں۔
یہ انگریزی ڈرامے کی تاریخ کا ایک زریں دور تھا جس نے دوسرے ادب کو بھی فیض پہنچایا۔