اردو کے شیدائی ڈاکٹر ممتاز احمد خاں

ستمبر 2022

اردو ادب کے ممتاز ادیب، مصنف، محقق اور نقاد ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کو اردو زبان و ادب سے غایت درجہ لگاؤ، الفت اور محبت تھی۔ ساتھ ہی انھیں اقبالیات سے عشق اور تحریک اسلامی سے گہری وابستگی بھی تھی۔
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی پیدائش خاندانی ذرائع کے مطابق 1950ء کی ہے جب کہ تعلیمی اسناد کے مطابق 13؍ستمبر1953ء کو موضع مروت پور، حاجی پور،ضلع ویشالی(بہار )کے ایک کسان گھرانے میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام رضوان احمد خاں تھا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد مہنار (حاجی پور ) ہائر سکنڈری اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد پٹنہ کالج میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1975ء میں بی۔اے (اردو آنرس ) فرسٹ کلاس سکنڈ سے کام یابی حاصل کی۔ انھیں پوری امید تھی کہ وہی فرسٹ کلاس فرسٹ ہوں گے لیکن فرسٹ کلاس سکنڈ ہونے کے بعد دل برداشتہ ہو کر ایم۔ اے میں شعبۂ انگلش میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے 1977ء میں ایم۔اے پاس کیا۔
انگلش سے ایم۔اے کرنے کے باوجود اردو زبان و ادب سے ان کی وابستگی اور والہانہ محبت کم نہ ہوئی اور ضمیر کی آواز پر 1978ء میں اردو میں پٹنہ یونی ورسیٹی سے ایم۔اے کیا۔
انھوں نے اپنی تدریسی خدمات کا آغاز زیڈ۔اے اسلامیہ کالج، سیوان سے کیا تھا۔ جنوری 1980ء میں بہار یونی ورسٹی، مظفر پور کے تحت آر۔ان کالج، حاجی پور میں بطور لکچرر بحال ہوئے اور 1994ء تک اسی کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اسی درمیان انھوں نے 1988ء میں مشہور و معروف تنقید نگار پدم شری ایوارڈ یافتہ پروفیسر کلیم الدین احمد کی نگرانی میں پٹنہ یونی ورسٹی سے پی۔ایچ دی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی پی۔ ایچ ڈی کا عنوان تھا The Tradition Of Ornate prose in Urdu۔
1981 میں اسٹوڈنٹ آف اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا اور ادارۂ ادب اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ جون 1994 میں ان کا تبادلہ شعبۂ اردو، بہار یونی ورسٹی، مظفر پور ہوگیا، جہاں انھیں وسیع دائرے میں کام کرنے کا موقع ملا۔ یہاں درس و تدریس کے ساتھ ہی ریسرچ اسکالروں کی رہ نمائی ونگرانی بھی کرنے لگے۔ مجھے بھی ان کی رہ نمائی میں اپنے پی۔ ایچ ڈی کا ریسرچ ورک مکمل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ ستمبر 2018 میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر ملازمت سے سب کدوش ہوئے اور کورونا کی دوسری لہر کی زد میں آکر 23 اپریل 2021 کو ان کا انتقال ہوا۔
ریسرچ ورک کے سلسلے میں، میں جب بھی ان سے ملی وہ نہایت خندہ پیشانی، شفقت، اپنائیت اور خلوص کے ساتھ پیش آئے۔ ان میں انسانیت کا جوہر ہم دردی، رواداری، خلوص، اردو زبان و ادب اور اسلامی فکر کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ادب سے بے پناہ لگاؤ کے ساتھ ہی اسلامی فکر، خاص کر مولانا مودودی علیہ الرحمۃ اور علامہ اقبال رحمہ اللہ کی اسلامی فکر سے متاثر تھے۔ شرعی وضع کے ساتھ ہی صوم و صلٰوۃ کے پابند تھے۔ اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو کلاس روم ہی میں کہیں پر نماز ادا کر لیتے۔ وہ بہت ہی فرض سناش اور وقت کے پابند تھے۔ نہایت با اخلاق تھے اور چھوٹے بڑے سب کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔
میرے ریسرچ ورک کا عنوان بھی انھی نے طے کیا تھا۔ وہ عنوان تھا ”پروفیسر مختار الدین احمد آرزو کی حیات اور ادبی کارنامے” آرزو صاحب عربی کے جید عالم اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں شعبۂ عربی میں پروفیسر و صدر شعبہ رہے، لیکن وہ عربی کے ساتھ ہی فارسی و اردو کے مشہور مصنف، دانش ور، محقق اور تنقید نگار تھے۔ مجھے اپنی تحقیق میں ڈاکٹر ممتاز سے کافی مدد و رہ نمائی ملی۔ ڈاکٹر ممتاز صاحب نے پروفیسر آرزو کی تصانیف پر گہری تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے ان کی چار ایسی کتابوں کا ذکر کیا جس کا تذکرہ پروفیسر آرزو کی تصنیفات کی فہرست میں شامل نہیں تھا اور کسی دوسرے اہل قلم نے بھی اس کا تذکرہ باضابطہ طور پر نہیں کیا تھا۔ ان تصانیف کے نام ہیں 1.علی گڑھ میگزین ”غالب نمبر” 2. تلامذۂ مصحفی 3. تذکرۂ مخزن نکات اور 4. دیوان یکرو۔
ڈاکٹر ممتاز صاحب بنیادی طور پر ادیب، مصنف، محقق اور تنقید نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن زمانۂ طالب علمی میں ان کی بعض نظمیں پٹنہ کالج میگزین اور رسالہ ‘صبح نو’ میں ممتاز احمد خاں ہمدرد کے نام سے شائع ہوئی تھیں۔ ان کا پہلا مضمون ‘وش کی منظری شاعری’کے عنوان سے اس زمانے میں شائع ہوا جب وہ بی۔اے کے طالب علم تھے۔ یہ مضمون ہفتہ وار اخبار ‘ہمارا نعرہ’، پٹنہ کے 21 جولائی 1972 کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے شاعری ترک کردی اور تصنیف، تحقیق و تنقید کی راہ اپنائی۔ انھیں اردو کے ساتھ ہی اقبال کی اسلامی و فکری شاعری سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ اس سلسلے میں بہت سارے تجزیاتی اور تنقیدی مضامین اخبارات، ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ ان کا دوسرا تنقیدی مضمون ”اقبال کی منظری شاعری” بہار اردو اکادمی کے ترجمان ”زبان و ادب” میں شائع ہوا۔ 1990 میں ان کے منتخب تنقیدی مضامین کا ایک اور مجموعہ ”ادب اور ادبی رویہ” کے نام سے شائع ہوا۔ ویسے تو انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں لیکن ان کی مشہور و مقبول اور قابل قدر تصنیف ”اقبال: شاعر و دانش ور” 2013 میں منظر عام پر آئی۔
ڈاکٹر ممتاز کے ایک شاگرد رشید ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق نے ان کی زندگی میں ان کی ادبی، علمی، تدریسی اور تحریکی خدمات کے اعتراف میں مضامین اور تاثرات کا ضخیم مجموعہ ”ڈاکٹر ممتاز احمد خاں…ایک شخص ایک کارواں” 2015 میں شائع کیا تھا۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے انتقال کے محض چار دن بعد ہی (اپریل 2021 میں ) ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق کا بھی کورونا کے باعث انتقال ہوگیا۔ اس کتاب کے اجرا کے موقع پر خود ڈاکٹر ممتاز احمد خاں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”یہ میری ادبی زندگی کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔ اس کتاب میں میری بیاض سے غزلیں اور نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ آپ (مشتاق) نے ایک لائق و فائق شاگرد ہونے کا ثبوت دیا اور شاگردی کا حق ادا کر دیا۔”
(بحوالہ روز نامہ پندار، پٹنہ 27؍ اپریل 2021)
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کو ان کی گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی ایوارڈ ملے۔ بہار اردو اکادمی نے انھیں 16؍ اپریل 2016 کو”اقبال: شاعر اور دانش ور” کی اشاعت پر ‘کلیم الدین احمد ایوارڈ’ سے نوازا تھا۔ ڈاکٹر ممتاز کے مضامین کا آخری مجموعہ ”قندیل” ہے جس کی اشاعت مارچ 2021 میں ہوئی تھی۔
ان کے انتقال سے صرف 23 دن پہلے انھی کے دولت کدہ (حسن منزل، حاجی پور ) پر 31؍مارچ کو ”ڈاکٹر ممتاز احمد خاں… ایک شخص ایک کارواں” کے سلسلے میں ایک ادبی نشست ہوئی تھی۔ یہ ادبی تقریب ناشاد اورنگ آبادی کے اعزاز میں سجائی گئی تھی۔ اس موقع سے ناشاد صاحب نے خراج تحسین کے طور پر ‘ممتاز احمد خاں کی نذر’ کے نام سے ایک نظم کہی تھی۔ ڈاکٹر ممتاز مرحوم کے انتقال کے بعد انھوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ”افسوس! کون جانتا تھا کہ وہ اتنی جلدی دنیائے ادب کو سونا کرکے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائیں گے اور ہم جیسے ہزاروں کو ناشاد کر دیں گے۔” نظم ملاحظہ ہو:
ممتاز احمد خاں کی نذر
کیا بتاؤں کتنے پیارے ڈاکٹر ممتاز ہیں
اچھے اچھوں سے بھی اچھے ڈاکٹر ممتاز ہیں
دوسروں کا وقت پر وہ ساتھ دیتے ہیں سدا
من کے سچے دھن کے پکے ڈاکٹر ممتاز ہیں
جذبۂ ایثار سے لبریز ہے قلب و دماغ
دل کشادہ رکھنے والے ڈاکٹر ممتاز ہیں
سب سے ملتے ہیں خوشی سے سب کا رکھتے ہیں خیال
شادماں، شاداب دکھتے ڈاکٹر ممتاز ہیں
درس گاہ علم کے مشہور دانش ور ہیں وہ
منفرد احساس والے ڈاکٹر ممتاز ہیں
ان کے جیسا دوسرا اہلِ نظر دیکھا نہیں
اپنے فن کے اک اکیلے ڈاکٹر ممتاز ہیں
اونچی شخصیت کے مالک اعلیٰ ظرفی کی مثال
آگہی کا درس دیتے ڈاکٹر ممتاز ہیں
ان سے مل کے شاعر ناشاد ہو جاتے ہیں شاد
ایسے دل کے شاہ زادے ڈاکٹر ممتاز ہیں
ڈاکٹر ممتاز احمد خاں مرحوم کے انتقال سے بہار کی حد تک ادبی دنیا سونی ہوگئی اور ان کے اچانک انتقال سے ادبی حلقے میں سوگواری کی لہر دوڑ گئی۔ تعزیتی نشستوں میں اظہار کیے گئے تاثرات، احساسات اور پیغامات سے متعلق اخبارات و رسائل میں بے شمار مضامین شائع ہوئے جن کا حوالہ دینا اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں ہے۔نمونے کے طور پر تعزیتی پیغام کے چند حوالے پیش کیے جا رہے ہیں جن سے ممتاز احمد خاں مرحوم کی شخصیت، ادبی حیثیت، خلوص اور شریف النفسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر (ڈاکٹر) رضیہ تبسم، سابق صدر شعبۂ تعلیم، پٹنہ یونی ورسٹی و سابق چیر پرسن بہار پبلک سروس کمیشن نے اپنے تعزیتی مضمون ”آہ! میرے بھائی ممتاز خاں” میں ان خیالات کا اظہار کیا: ”وہ نہایت شریف النفس، با اخلاق اور با کردار انسان تھے۔ انھوں نے ہمیشہ مجھے ‘آپا’ کہہ کے مخاطب کیا جو میرے لیے باعث مسرت اور ان کے خلوص و اپنائیت سے بھرا جذباتی لگاؤ کا مظہر تھا۔ میرے صرف ایک حقیقی بھائی تھے جو پاکستان چلے گئے، وہ مجھے آپا کہتے تھے اور ہندستان میں دوسرے بھائی ممتاز احمد خاں تھے جو مجھے ‘آپا’ کہہ کے مخاطب ہوتے تھے۔”
(پندار،پٹنہ،27اپریل2021)
قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر اور مشہور صحافی محمد رفیع نے اپنے پیغام میں کہا: ”ڈاکٹر ممتاز احمد خاں ایک عظیم مجاہد اردو تھے۔ ویشالی ضلع میں اردو تحریک انھی سے وابستہ تھی۔ اردو کے فروغ کے لیے وہ ہمیشہ کوشاں رہتے۔ وہ انجمن ترقی اردو ویشالی ضلع کے تین بار صدر کے عہدے پر فائز رہے اور ریاستی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے۔ ایک سال کے لیے انجمن ترقی اردو بہار کے کارگزار صدر بھی رہے اور اپنی ذمے داریوں کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ وہ کاروان اردو حاجی پور کے منتخب صدر بھی تھے۔ غرضے کہ وہ اتنی بڑی تنظیمی صلاحیت کے انجمن تھے۔”
(روز نامہ پندار،پٹنہ، 27 اپریل 2021)
ان کے علاوہ ‘کاروان ادب’ کی طرف سے ‘حسن منزل’، آشیانہ کالونی، حاجی پور میں ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کی وفات پر ایک دعائیہ اور تعزیتی نشست 26 اپریل 2021 کو ہوئی جس میں ہر شعبۂ زندگی کے دانش وروں نے اظہار خیال کیا۔ ان پیغامات و تاثرات اور خیالات کا اجمالی خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جن سے ان کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
”کاروان ادب کے سکریٹری انوارالحسن وسطی نے کہا ”ممتاز احمد خاں ایک نام ور ادیب و ناقد کے ساتھ ہی اردو شعر و ادب کے ایک جید استاد اور ایک مثالی انسان تھے۔ ان کی شخصیت میں اللہ تعالی نے جتنی خوبیاں یکجا کردی تھیں وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہیں۔ وہ ایک جامع صفات اور با فیض انسان تھے،… وہ سراپا محبت، بے ضرر، انتہائی مشفق اور دل کھول کر محبت کرنے والے انسان تھے،… اسلامی ادب کے زبردست حامی، مذہب اور ادب کے تعلق سے ان کا رویہ اور نظریہ بالکل واضح تھا۔ وہ مسلکاً اہل حدیث تھے لیکن مسلکی رواداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اقبال اور مولانا مودودی رحمہ اللہ سے ان کی فکری مماثلث تھی۔۔۔ بڑے انسان، احترام انسانیت کے علم بردار اور اپنی مثال آپ تھے۔ زبان و ادب کے فروغ اور اردو تحریک کے حوالے سے بھی ان کی خدمات کا دائرہ کافی وسیع تھا۔ (ڈاکٹر عارف حسن وسطی)…. باوقار دانش ور، اعلی اخلاقی اقدار و روایت کے پاس دار تھے۔ ہر دل عزیز تھے اور ان کا کوئی دشمن تھا اور نہ وہ کسی سے دشمنی رکھتے تھے۔ ( الحاج حضیر احمد خاں)..حاجی پور میں ادبی سرگرمیوں کے بانی دراصل ممتاز تھے۔ حاجی پور کو انھوں نے علم و ادب کا ایک مرکز بنا دیا تھا۔ (پروفیسر واعظ الحق) متذکرہ تعزیتی پیغامات اورتاثرات اس بات کی دلیل ہے کہ ڈاکٹر ممتاز احمد خاں گونا گوں اوصاف اور خصوصیات کے مالک تھے۔ وہ تا دم آخر سرگرم رہے اور اردو ادب کی آبیاری کرتے رہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو اپنے فضل و کرم سے معاف کرتے ہوئے اور ان کی نیکیوں کو قبول کرکے اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!”
DR.NAZIA AKHTAR
D/o Dr.M.A.A.Gilani,
Alam Gunj,P.O.Gulzar Bagh,
PATNA-800007, (BIHAR)

شیئر کیجیے

اس کیو آر کوڈ کو اسکین کرکے ادارے کا تعاون فرمائیں یا پرچہ جاری کرانے کے لیے زرِ خریداری ٹرانسفر کریں۔ رقم بھیجنے کے بعد اس موبائل نمبر (+91 8595650280) پر اسکرین شاٹ ضرور ارسال کریں تاکہ آپ کو رسید بھیجی جاسکے۔ شکریہ