1857کی جدوجہدِ آزادی، دہلی کالج، سرسید تحریک اور دیگر سماجی محرکات نے اردو ادب میں افسانوی اور غیر افسانوی نثر کی مختلف اصناف کو باقاعدہ فن کے طور پر فروغ دینے اور پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور آج اردو ادب میں ان اصناف کی ایک مستحکم اور توانا روایت موجود ہے۔ ان میں سے ایک مضمون کے بطن سے ہی جنمی غیر افسانوی نثر ‘انشائیہ’ ہے، جس کو ‘انشائے لطیف’، ‘لطیف پارہ’ یا ‘مضمون لطیف’ بھی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے متبادل کے لیے ہم Personal Essay، Light Essay اور کبھی کبھی Belles Letters کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس کی اردو اور انگریزی اصطلاح اور عناصر ترکیبی کی تحدید کی یا تخلیقی عمل پر اصول و ضوابط کی ناروا پہرے داری بٹھانے کی جو کوششیں کی گئیں اسے کچھ نے تخلیقی عمل میں محتسب کی انانیت پسندی سے تو کچھ نے عالم سرور کی سرخوشی سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ عرصے تک انشایے کو ایک جدید اور متنازعہ صنف سمجھا جاتا رہا۔ آخر کار انشائی ادب کے سفر میں وہ منزل بھی آئی جب انشائیہ اپنے مماثل اصناف جن کے جلو میں اس کا ارتقا ہوا تھا کی طرح خود مکتفی اور آزاد صنف ہو گیا اور اس کی بھی اپنی شعریات اور رد و قدح کے پیمانے وضع ہو گئے۔ انشایے کے ناقدین کو ان ہی شعریات اور اصول نقد کی بنیاد پر اس کی تحسین و تنقید کرنی چاہیے۔
ہم جانتے ہیں کہ انشایے میں موضوع، ہیئت، طوالت اور طریق کار کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ اس میں انشائیہ نگار کسی موضوع سے متعلق اپنے ذہنی ترنگ اور شخصی رد عمل کا شگفتہ، غیررسمی اور غیر منطقی انداز میں مسرت بہم پہچانے کے لیے اظہار کرتا ہے۔ انشائیہ نگار کسی بھی موضوع پر اپنے احساسات و تاثرات کو غیر سلسلے وار، غیر مدلل اور غیر منطقی انداز میں آزادہ روی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اس طرح وہ اشاروں اشاروں میں ہلکے پھلکے انداز میں فکر و فلسفے کے نئے تناظرات، نئے معانی اور نئے حقائق بھی دریافت کرتا اور اپنے انداز میں ‘دوسرا کنارا’ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے بھی انشایے میں معلومات کی نہیں تاثرات کی، علمیت کی نہیں مسرت کی، سادگی کی نہیں شگفتگی کی اہمیت ہوتی ہے۔ انشایے کے خصائص کی اجمال نقل کرتے ہوئے نظر صدیقی لکھتے ہیں:
“انشائیہ وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کر حماقت تک اور حماقت سے لے کر حکمت تک ساری منزلیں طے کی جاتی ہیں۔ یہ وہ صنف ادب ہے جس میں بے معنی باتوں میں معنی تلاش کیے جاتے ہیں اور بامعنی باتوں کی مہملیت اور مجہولیت اجاگر کی جاتی ہے۔”
مذکورہ بالا تعریف اور تفاصیل کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ انشایے کا ہر پیرا گراف خود مکتفی اور مکمل ہوتا ہے۔ (اس لیے انشایے کو غزل بھی کہتے ہیں) اس کے باوجود اچھا انشائیہ ریزہ خیالی کا شکار نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی طور پر ابتدا سے لے کر آخر تک ان میں کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہوتا ہے۔ انشایے میں داخلیت کی کارفرمائی یا شخصی ردعمل، عدم تکمیلیت کا احساس، ایجاز و اختصار، رمزیت و اشاریت، غیر منطقی ربط، زبان کی شگفتگی اور مسرت بہم پہچانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
گرچہ اردو ادب میں انشایے کے ابتدائی نقوش ملا وجہی کی ‘سب رس’، عطا حسین تحسین کی ‘نو طرز مرصع’، رجب علی بیگ سرور کی ‘فسانہ عجائب’، ماسٹر رام چندر اور میر ناصر علی کی تحریروں میں تلاش کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تحریریں انشایے کے بنیادی خصائص سے محروم ہیں۔ ان میں تصنع، تکلف اور آورد وغیرہ کی موجودگی اور بے ساختگی، غیر منطقی ربط اور عدم تکمیلیت کے احساس کی غیر موجودگی انشایے کے بنیادی وصف کو مجروح کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ غالب کے بعد انشایے کے واضح نقوش سرسید احمد خان کی تحریروں میں ملتے ہیں۔ سرسید احمد خاں نے سماجی اصلاح کے پیش نظر مختلف چھوٹے چھوٹے مسائل پر دل چسپ اور پر لطف انشایے لکھے۔ چوں کہ سرسید کے پیش نظر انبساط نہیں اصلاح تھی اور ان کی تحریروں پر مقصدیت کا غلبہ رہتا تھا۔ اس لیے ان کے یہاں انشائیہ بطور فن پورے آب و تاب کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ بہر کیف اردو انشایے کو رواج دینے میں ان کا اور ان کے رفقا کا ایک اہم رول ہے۔ اس کے بعد عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، سجاد حیدر یلدرم، عبدالقادر، حسن نظامی، فرحت اللہ بیگ، ملا واحدی، خلیق دہلوی، نیاز فتح پوری، مہدی افادی اور سجاد انصاری وغیرہ تقریباً سبھی نے انشایے لکھے لیکن اپنی تحریروں کو کبھی انشایے کا نام نہیں دیا۔ فرحت اللہ بیگ نے اردو کے نثری اسلوب میں خوش طبیعی کو فروغ دیا۔ ‘دلّی کا یادگار مشاعرہ’، ‘نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی’ اور ‘پھول والوں کی سیر’ جیسی اہم تصانیف کے علاوہ انھوں نے اعلا معیار کے انشایے تخلیق کیے۔ سجاد حیدر یلدرم کے نثری مجموعے ‘خیالستان’ میں شامل ‘مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ’، ‘حضرتِ دل کی سوانح عمری’ وغیرہ اپنے عہد کے معیار کے مطابق اردو کے بہترین انشایے ہیں۔ سجاد حیدر یلدرم کے یہ انشایے حسن کاری، بے تکلف انداز، غیر رسمی طریق کار اور تہہ داری کے اہم نمونے ہیں۔ نیاز فتح پوری کے تحریر کردہ انشائیوں ‘برسات’، ‘عورت’، ‘ایک مصور فرشتہ’ اور ‘ایک رقاصہ سے’ کو ان کا بہترین انشائیہ قرار دیا جاتا ہے جن میں حقیقت کا اظہار، شخصی رد عمل اور اسلوب کی لطافت ملتی ہے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اردو انشایے کو رنگین اسلوب اور استعارے کی زبان دی ہے۔ خواجہ حسن نظامی اردو نثر میں اپنے مخصوص لہجہ، تازگی، برجستگی اور انوکھے پن سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں باریک بینی، مشاہدات کی گہرائی اور تجربات کی وسعت ملتی ہے۔ مثلاً ‘جھینگر کا جنازہ’، ‘آنسو کی سرگزشت’، ‘دیاسلائی’، ‘الف خالی’ اور ‘تمباکو نامہ’ وغیرہ۔ آزادی سے قبل یا فوراً بعد جن لوگوں نے انشائیہ نگاری کے فن کو اعتبار بخشا ان میں رشید احمد صدیقی، مولانا ابوالکلام آزاد، پطرس بخاری،کرشن چندر، کنہیا لال کپور، وزیر آغا، جمیل آزر کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں فن انشائیہ نگاری کو ایک نئی بلندی تک پہنچانے والوں میں یوسف ناظم، مجتبیٰ حسین اور مشتاق احمد یوسفی وغیرہ کے نام نامی شامل ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر انشائیہ نگاروں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انشائی ادب کی ابھی تک کی بحث کے مدار میں صرف یہی شخصیات تھیں۔ اس لیے یہاں ان شخصیات کو عمداً معرض بحث میں نہیں لایا گیا ہے۔ میں نے جن انشائیہ نگاروں کو موضوع بحث بنایا ہے ان میں جاوید وششٹ، سید ضمیر حسن دہلوی، انور سدید، پروفیسر زماں آزردہ، پروفیسر خالد محمود اور پروفیسر ابن کنول شامل ہیں۔
اردو انشایے کو معرکۂ ملا وجہی اور ملا غواصی سمجھنے والے ڈاکٹر شیو پرشاد وششٹ معروف بہ جاوید وششٹ کو اردو دنیا ایک کام یاب شاعر، انشائیہ نگار، ماہر دکنیات، اظہر علی فاروقی، اعظم کریوی اور ظفر ادیب کے بعد لوک ادب کے رسیا اور ذاکر حسین دہلی کالج کے ایک مخلص استاد کے طور پر جانتی ہے۔ ان کی تحقیقی کاوشیں ‘بحرالمعانی: دکنی اردو لغت’، ‘دکھنی درپن’، ‘ملا وجہی’، ‘ملا وجہی کے انشایے’، ‘روپ رس’، ‘غزال رعنا’، ‘قصۂ حسن و دل’، ‘ہریانوی برج کے میگھ ملہار’ اور تخلیقی کاوشیں ‘شعلہ تشنگی’ اور ‘انشائیہ پچیسی’ ادبی تاریخ کا قابل قدر سرمایہ ہیں۔ انشائیہ نگاروں کی عالمی فہرست میں مائیکل ڈی مونٹین اور فرانسس بیکن کے بعد ملاوجہی کو تیسرے نمبر پر رکھنا، انشایے کے موجد سمجھے جانے والے مون ٹین کا ہم عصر ہونے کی بنیاد پر وجہی کو اردو انشایے کا موجد تسلیم کرنے پر اصرار کرنا اور مولوی عبدالحق کے تسلیم کردہ ‘پند و موعظت کے دفتر’ یعنی ‘سب رس’ میں ۶۱ انشائیوں کو نشان زد کرنا جاوید وششٹ کے ایسے موقف ہیں جن میں تحقیقی بصیرت و آگہی سے کہیں زیادہ اردو کو دنیا کی بڑی زبانوں کے مد مقابل رکھنے اور اس کا علم بلند رکھنے کے جذبے کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ جہاں تک ‘انشائیہ پچیسی’میں شامل پچیس انشائیوں کی بات ہے تو ان میں عصری آگہی کے ساتھ انشائیہ نگار کی ذات کا بہترین انکشاف ہے اور تجربات کی وسعت، افکار و مسائل کی تاثراتی رنگینی اور انشایے کی رسمیات موجود ہیں۔ ‘انشائیہ پچیسی’ میں شامل مشہور انشایے ‘روزنِ در’ کے اس اقتباس کو دیکھیے:
“بھارت کے لوک گیتوں میں شبِ وصل کے حسین مناظر کی سچی عکاسی ملتی ہے۔ ان گیتوں کا منتہا climax اس لمحہ آتا ہے جب گیت کا نائک گیت کی نائکہ کو اپنی آغوش میں کھینچ لیتا ہے تو نائکہ فوراً دیا بجھا دیتی ہے… دیے کے بجھتے ہی روزنِ در اندھا ہو جاتا ہے۔
جب لوگوں نے خانقاہ کے روزنِ در سے جھانک کر دیکھا کہ صوفی ایک ‘فتنہ’ خانقاہ کے ساتھ جسے دیکھ کر اک شیخ کے تو ہاتھ سے تسبیح گر گئی، خلوت میں محوِ اختلاط ہے تو صوفی رسوا ہو گیا اور خانقاہ بدنام۔
جب محبت پر پہرے لگ جاتے ہیں تو روزنِ در کا استعمال کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔ روزنِ در سے رقیب نے جھانکا تو دیا بجھا کر روزنِ در کو اندھا کر دیا گیا مگر دیوار کے کان تو بہرے نہیں تھے۔ آخر رقیب نے پازیب کے گھنگرو کی جھنکار سن ہی لی۔ اب تو اس کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور لگا انگاروں پر لوٹنے اور آخر وہ جل بھن کر کباب ہوگیا۔
جل گیا رشک کے مارے پسِ دیوار رقیب
وصل میں جب ترے پازیب کا گھنگرو جھنکا”
ہم میں سے اکثر لوگ واقف ہیں کہ جاوید وششٹ ماہر دکنیات ہونے کے ساتھ ساتھ ہریانوی برج کے میگھ ملہار(لوک گیتوں) کھڑی بولی اور اردو زبان کے مابین لسانی رشتوں کے مطالعے سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے نیز دہلی کے گرد و نواح کے پورے سماجی، سیاسی و معاشرتی ماحول اور تہذیبی و مذہبی عوامل و عواقب سے مکمل آگہی رکھتے تھے۔ جس کی جھلک اس انشایے میں اور اس مجموعے میں شامل دوسرے انشائیوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ساتھ ہی ولی، غالب، حالی، حسرت، چکبست، فیض اور خود کے اشعار سے نغمگی پیدا کرنے، اپنی باتوں کو صاد کرنے یا وسعت آشنا کرنے کی بھی کوشش نظر آتی ہے۔ جاوید وششٹ اپنے انشائیوں میں سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور روزمرہ، چٹخارہ دار زبان اور صوتی آہنگ سے پیدا ہونے والی نغمگی کو انشایے کا لوازمہ مان کر اپنے انشائیوں میں برتنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی عملی صورتیں جا بجا ان کے انشائیوں میں دیکھی بھی جاسکتی ہیں۔
فضلی، میر امن، مرزا فرحت اللہ بیگ، میر ناصر علی، خواجہ حسن نظامی، شاہد دہلوی، ملا واحدی، اشرف صبوحی، خواجہ محمد شفیع اور مرزا محمود بیگ وغیرہ کی قائم کردہ ادبی روایت کے جو امین اور وکیل ہوئے اور دہلویت کو اپنا سرمایۂ افتخار سمجھا ان میں ایک بڑا نام سید ضمیر حسن دہلوی کاہے۔ اگر خواجہ حسن نظامی کی نثر دہلوی نثر میں چوتھا سنگ میل ہے تو میرے نزدیک سید ضمیر حسن دہلوی کی نثر بھی اسی شاہ راہ کا بھاری پتھر ہے۔ ‘دلی والے’ (انشایے، خاکے، رپورتاژ)، ‘دلی والیاں’، ‘دلی سے دلی تک’، ‘دہلوی اردو’، ‘دلی کے محاورے’، ‘دلی کی گالیاں’، ‘دلی کا آخری دیدار’، ‘دلی کی آخری بہار’، ‘خلیل خاں فاختہ: میر باقر علی داستان گو دہلوی’،’مکاتیب احمد سعید’، ‘فسانہ عجائب کا تنقیدی مطالعہ’ اور ‘فکر نو: شاہجہاں آباد نمبر’ وغیرہ ان کے تحقیقی و تخلیقی کارنامے ہیں۔ جہاں تک سوال ان کے انشائیوں کا ہے تو ان میں مسرت و بہجت فراہم کرنے، مغلظات سے مرغوبیت کو اور معمولی شے کے غیر معمولی پن کو سطح پر لانے کی پوری توانائی موجود ہے، ان کے ‘مشہور ے’ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
“پرانے زمانے کی بیگمیں غالباً اس نکتے کو خوب سمجھتی تھیں۔ جب کوئی حکم دیا تو اس کے ساتھ دو چار گالیاں بھی چٹخا دیں۔ اری او نصیبن کم بخت، مردار، خصموں کھائی، حرافہ، تجھے آئے موت، اللہ کرے کیا چبوترہ خانم بنی بیٹھی ہے۔ دیکھتی نہیں میرے بچے کا دم لبوں پر آتا ہے۔ جا دوڑ کے حکیم صاحب کو تو بلا لا اور ہاں دیکھیو ایسے آئیو جیسے یہیں کھڑی تھی۔ ذرا دیر کی اور میرے بچے کو کچھ ہو گیا تو تیری بوٹیاں کر کے چیل کوؤں کو دوں گی… اتنا سننا تھا کہ نصیبن یوں گئی جیسے کمان سے تیر… میں گالیوں کے مخالفین سے پوچھتا ہوں اس سے بہتر بھی کوئی صورت ایسی ہو سکتی ہے جو نصیبن کے تھواسے جسم میں ایٹمی توانائی پیدا کر دیتی… یہ تو ادنی سا کرشمہ ان گالیوں کا ہے جو صحبت نسواں میں رہتے اپنا اصل رنگ روپ کھو چکی ہیں…”
اس اقتباس سے دلی کی ٹکسالی اور چٹخارہ دار زبان لکھنے پر ان کی مکمل دسترس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دہلوی زبان و بیان کے مذکورہ بالا پیران طریقت کی اتباع میں لکھی ہوئی ان تحریروں میں محاوروں کے برمحل استعمال اور روز مرہ کے صحیح تصرف سے بیان برجستہ، پرلطف اور شگفتہ ہو گیا ہے اور انشائیہ ایک خاص قسم کا لطف و انبساط کا سامان فراہم کر رہا ہے۔ گالیاں پڑھ کر اور سن کر بدمزگی کی کیفیت نہیں پیدا ہو رہی ہے بلکہ دہلوی زبان کی تخلیقی قوت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ گالیاں لکھتے وقت بھی انشائیہ نگار اس اعصابی خوف سے بے فکر نظر آتا ہے جو سماجی و معاشرتی حقائق کے بیان میں آمد نہیں آورد کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ ان کے انشائیوں میں ایسا بار بار محسوس ہورہا ہے کہ وہ انشائیہ نگاری کے آداب و مقاصد کو ہمیشہ ملحو ظ رکھتے ہیں اور انشائی بیان میں معمولی اشیا کے غیرمعمولی پن کو اجاگر کرکے مسرت و بہجت کی صورتیں پیدا کرتے ہیں۔
پروفیسر محمد زماں آزردہ زمانہ طالب علمی سے ہی ایک فعال اور متحرک تخلیقی شخصیت کے مالک رہے ہیں۔ کشمیری اور اردو دونوں زبانوں میں یکساں مقبول ہیں۔ کشمیری انشائیوں پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ مل چکا ہے تو اردو میں بھی ‘مرزا سلامت علی دبیر:حیات اور خدمات’ جیسے موضوع پر تحقیق و تدقیق سے صرف دبیر فراموشی کی تلافی نہیں کی ہے بلکہ اپنی محنتوں اور مشقتوں کی مہر لگائی ہے اور تحقیق کا مکمل و مبسوط نمونہ خلق کیا ہے جسے تمام موجود بڑے ناقدوں اور محققوں نے سراہا اور مطالعات دبیر میں اسے سنگ میل سے تعبیر کیا۔ تحقیق و تنقید کے علاوہ پروفیسر محمد زماں آزردہ کی کہانیوں کا مجموعہ ‘اور وہ ٹاپ کرگئی’ اور بچوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے ‘گلدستہ’ کی مختلف جلدیں بھی شائقین ادب سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ ‘شیریں کے خطوط’، ‘غبار خیال’ اور ‘غبار کارواں’ ان کے انشائیوں کے مجموعے ہیں جن سے ان کی تخلیقی رسائیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے ذہن کی شوخی، طنزیہ انداز اور معمولی باتوں میں نکتہ آفرینی کی کارفرمائی کو پہچانا جاسکتا ہے۔ و ہ قدیم و جدید کی آویزش سے پیدا شدہ سماجی مسائل کو سمجھنے، دو متضاد چیزوں میں مماثلت تلاش کر لینے اور ان کو تخلیقی رنگ دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی کاموں کی طرح ناقدوں نے غیر افسانوی نثر میں ان کی خدمات کو بھی سراہا ہے۔ پروفیسر شکیل الرحمن ان کے انشائیوں کے مجموعے ‘غبار خیال’ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
“غبار خیال کشمیر کے ایک نوجوان فن کار کے لطیف انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ لفظ و بیان کا یہ آئینہ سوچ کی بدمستی اور نشاطیہ رحجان کو احساس اور تخیل کے کئی رنگوں کے ساتھ نمایاں کرتا ہے، اور یہ اس آرٹ کی سب سے بڑی خصوصیت بھی ہے… ‘غبار خیال’ کے انشائیوں میں جو تاثرات ہیں اور جذبوں کے آہنگ کا جس طرح اظہار ہوا ہے ان سے زماں صاحب کی داخلی ہیجان اور ذہن کی لہروں پر تیز دوڑتی ہوئی چنگاریوں کی بے تابی، ان کی منتشر کیفیتوں اور لفظوں کی صورتوں میں ان کی ‘آزادی’ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ داخلی ہیجان،بے تاب چنگاریوں کا تیز سفر اور ان چنگاریوں کا انتشار اور ان کی آزادی… اس آرٹ کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ محمد زماں کے انشائیوں کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان بنیادی خصوصیات سے واقف ہیں۔”
پروفیسر ابن کنول کو بنیادی طور پر قصے کہانیوں سے اور داستانوں کو تہذیبی اور جمالیاتی سیاق میں دیکھنے سے دل چسپی ہے۔ وہ ‘ہندستانی تہذیب۔ بوستان خیال کے تناظر میں’، ‘بوستان خیال کا تہذیبی مطالعہ’، ‘داستان سے افسانے تک’ اور ‘داستان کی جمالیات’ کے مصنف ہیں اورداستان ‘ریاض دلربا’ کی دریافت کا سہرہ بھی انھی کے سر ہے۔ وہ ایک اچھے اور سینئر افسانہ نگار ہیں۔ ‘بند راستے’ اور ‘تیسری دنیا کے لوگ’ ان کے افسانوی مجموعے اور ‘بساط نشاط دل’، ‘کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی’ اور ‘بزم داغ’ علی الترتیب ان کے انشائیوں، خاکوں، ڈراموں کے مجموعے ہیں۔ سفر نامہ ‘چار کھونٹ’ اور تبریک (تقاریظ)، شاعری اور افسانے کے انتخابات اس پر مستزاد ہیں۔ ان کوائف سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پروفیسر ابن کنول کا بنیادی سروکار نثر کی تخلیق اور تخلیقی نثر سے ہے۔ افسانوی اور غیر افسانوی نثر دونوں ان کی جولان گاہیں ہیں۔
جہاں تک سوال ‘بساط نشاط دل’ میں شامل (کل بیس) انشائیوں کا ہے تو اس میں بھی متنوع مسائل کی ایک دنیا آباد ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس میں بیان کردہ زیادہ تر مسائل کا تعلق طبقہ اشراف سے ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انشائیہ نگار آپ بیتی کو اشراف بیتی بنا کر پیش کر رہا ہے۔
‘میں ایک پروفیسر ہوں’، ‘ایل۔ ٹی۔ سی’، ‘ہتک عزت’ اور ‘چلو انجمن بنائیں’ وغیرہ ایسے انشایے ہیں جن میں طبقہ خاص کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ خیر موضوع کیسا بھی ہو۔ پست ہو یا بلند۔ ایک خلاق، خوش فکر اور ذکی الحس انشائیہ نگار اس میں جان ڈال سکتا ہے۔ پروفیسر ابن کنول اکثر مقامات پر فن انشائیہ نگاری کی رسومیات اور شعریات کو مد نظر رکھتے ہیں اور انسان کی نفسیاتی کم زوریوں، ذہنی رویوں اور مزاج پر طنز کرنے اور چٹکی لینے سے نہیں چوکتے ہیں۔ ایک عام تجربے اور رد عمل کو اپنے تخلیقی جوہر کی بدولت نیا اور مخصوص سیاق عطا کر کے حظ اور لطف کو دوبالا کر دیتے ہیں۔ بعض دفعہ واقعات کے دل چسپ بیان سے تبسم زیر لب کی نہیں کھل کر مسکرانے اور ہنسنے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ اگر قاری ان کے انشائیوں کے کردار سے پہلے سے واقف ہے تو وہ تیر کے جگر سے پار ہونے کی دعا نہیں بلکہ سلسلے کو دراز کرنے اور خلش کے دوچند ہونے کا متمنی ہوتا ہے۔
پروفیسر خالد محمود گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام ان کا بنیادی وصف ہے۔ شعر گوئی میں طبع آزمائی کے ساتھ 1963میں راہی قلمی رسالے سے نثر نگاری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا آج وہ ایک خاص مقام و مرتبے کو پہنچ گیا ہے۔ پروفیسر خالد محمود کے دو شعری مجموعے ‘سمندر آشنا’ اور ‘شعر چراغ’ اور ایک انتخاب کلام ‘شعر زمین’ نیز مختلف تحقیقی و تنقیدی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں ‘اردو سفرناموں کا تنقیدی مطالعہ’، ‘تفہیم و تعبیر’، ‘نقوش معنی’، ‘کلیات ملا رموزی’ (مرتبہ)، ‘اردوصحافت: ماضی اور حال’ (مرتبہ)، ‘اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت’ (مرتبہ) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ‘تاپسی’ اور ‘قصائی باڑھ’ جیسے تراجم بھی کیے ہیں لیکن غیر افسانوی نثر کی تخلیق و تحقیق ان کی اصل شناخت ہے۔ خاکوں اور انشائیوں کا مجموعہ ‘شگفتگی دل کی’ انشائی ادب کا قابل ذکر سرمایہ ہے۔ اس مجموعے میں انشایے اور خاکے دونوں شامل ہیں۔ ان کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ پروفیسر خالد محمود شوخی و ظرافت کے پردے میں عہد حاضر کی بوالعجبیوں اور خام کاریوں پر کف افسوس ملتے ہوئے طنز کرتے ہیں اور واقعات و اقدار کے تصادم سے بلا واسطہ تفکر و ترغیب کی صورتیں پیدا کرتے ہیں۔ ‘سٹی بس کا سفر’ ان کا ایک مشہور انشائیہ ہے۔ جس کی تشریح ان ہی کے ایک شعر میں موجود ہے:
سٹی بس نے جواں حس چھین لی ہے
ہمارے جسم اب باقی نہیں ہیں
اس کے علاوہ ان کے دوسرے انشائیوں میں بھی زندگی کے تجربات اور کرب کا جمالیاتی اظہار موجود ہے جو مسرت و انبساط کا وسیلہ بنتا ہے۔
‘آخری افطار’، ‘جب اچانک میکے سے’، ‘بہشت آں جا کہ’ اور ‘قلم برداشتہ’ وغیرہ ان کے معروف انشایے ہیں۔
یہ تو چند نام ہیں۔ اس کے علاوہ کام یاب انشائیہ نگاروں میں نصرت ظہیر، عظیم اختر، ڈاکٹر مصطفی کمال، منظور عثمانی، نسیم انصاری، اقبال مسعود اور اسد رضا وغیرہ جیسے ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے آزادی کے بعد ہندستان میں انشائیہ نگاری کا سمت و رفتار متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ خاص کر نصرت ظہیر جن کے تین مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
پاکستان میں جن لوگوں نے انشایے کے خد و خال متعین کرنے اور اس کو ایک علاحدہ، منفرد اور خود مکتفی صنف کے طور پر فروغ دینے میں خاص کردار ادا کیا ان میں وزیر آغا، مشتاق قمر، غلام جیلانی اصغر، اکبر حمیدی، انور سدید، جمیل آزر، سلیم آغا قزلباش، امجد طفیل، ناصر عباس نیر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض آج بھی لکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مضامین اور انشائیوں کے دونوں مجموعے ‘خیال پارے’ اور ‘دوسرا کنارا’ اور رسالہ ‘اوراق’ میں شائع ہونے والی انشائی ادب کی بحثوں کے دور رس نتائج سے سبھی واقف ہیں اور اس حقیقت سے بھی کہ اگر جاوید وششٹ انشایے کی قدامت کے معاملے میں ایک منتہا پر تھے تو وزیر آغا، جمیل آزر اور انور سدید وغیرہ دوسری منتہا پر۔ بہرحال ان سبھوں نے فن انشائیہ پر کتابیں لکھیں اور انشایے تخلیق کیے اور مطالعات انشائیہ کو فروغ دیا اور اسے ثروت مند بنایا۔ وزیر آغا اور جمیل آزر کے بعد انو رسدید نے شاعری، تنقید، ترجمہ، تاریخ، صحافت کے ساتھ ساتھ غیر افسانوی نثر کی تخلیق اور مطالعے میں خاص دل چسپی لی اور اسے ایک بلندی عطا کی۔ ‘دلی دور نہیں’، ‘محترم چہرے’، ‘آسمان میں پتنگیں’ ان کے انشائیوں کے مجموعے ہیں۔ انور سدید انشایے کو موضوعی اور داخلی صنف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انشایے کا موضوع نہ تو اعلیٰ ہوتا ہے اور نہ ہی ادنیٰ۔ موضوع کتنا بھی پیش پا افتادہ ہو خوش فکر انشائیہ نگار اس میں جان ڈال دیتا ہے۔ انور سدید کے تمام انشائیوں میں حقیر سے حقیر چیز کو انسانی زندگی سے جوڑ کر وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اچھا صحافی وقت کا نباض اور سماجی و سیاسی واقعات کے ظاہری اور باطنی اسباب کا پارکھ ہوتا ہے۔ چینی فلسفی کنفیوشیاس کے مطابق دانش ور Establishment کی چال بازیوں کو خوب سمجھتا ہے۔ اس زاویہ نظر سے انور سدید کے انشائیوں کا مطالعہ مزید بامعنی ہوجاتا ہے۔ انشائیہ ‘آسمان میں پتنگیں’ اس کی بہترین مثال ہے جہاں بظاہر ایک سطحی بیانیے میں معانی کی کئی پرتیں پوشیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سے انشایے اور انشائیہ نگار ہیں جو دعوت غور و فکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
Associate Professor
Dept. of Urdu .MANUU, Hyderabad
Mob: 7354966719