ماہرین نے زبان کو ایک زندہ شے قرار دیا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ زبان کا مطالعہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک اس کے تکلمی پہلو پر غور نہ کیا جائے۔ ماہرین کے نزدیک چھوٹی سے چھوٹی زبان بھی، جس کا کو ئی رسم الخط نہ ہو، دل چسپی کا موضوع بن سکتی ہے۔کیوں کہ ہر زبان ایک مکمل تہذیب و سماج کی نمائندگی کرتی ہے۔
‘ڈھونڈھاری’ راجستھان کی مشہور بولی ہے۔ راجستھان کی دیگر قدیم زبانوں کی خصوصیات اس میں موجود ہیں۔ ڈھونڈھاری مشرقی راجستھان کی نمائندہ اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ جس علاقے میں ڈھونڈھاری بولی جاتی ہے، اس کو ڈھونڈھار کہا جاتا ہے۔ علاقے کے نام کی مناسبت سے اس کا نام ڈھونڈھاری پڑا ہے۔ اس کو جے پوری بھی کہتے ہیں، کیوں کہ جے پور ڈھونڈھار کا مرکز بھی ہے اور راجدھانی بھی ہے۔ ۱۷۲۸ ء میں جب مہاراجہ سوائی جے سنگھ نے ایک نیا شہرجے پور آباد کیا تو اس علاقے کا نا م بھی جے پور مشہور ہوگیا۔ اسی کی مناسبت سے یہاں کی زبان کو جے پوری ڈھونڈھاری بھی کہتے ہیں: زبان کی اصل پہچان اس کی بنیاد سے ہوا کرتی ہے۔[۱]
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ راجستھان میں بولی جانے والی راجستھانی اکیلی زبان نہ ہو کر کئی زبانوں کا مرکب ہے، ان زبانوں کا جو اس خطے کے مختلف علاقوں میں صدیوں سے بولی جا رہی ہیں۔ پروفیسر فیروز احمد نے لکھا ہے:
”راجستھان میں بولی جانے والی زبان راجستھانی کے نام سے موسوم ہے۔ لیکن یہ راجستھانی مختلف بولیوں کی ایسی شکل ہے جو اپنے لب و لہجے کے اعتبارسے مختلف ہیں۔ مگر ان کی اصل ایک ہی ہے۔ اور یہ راجستھان کے وسیع و عریض علاقوں میں ہندی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باوجود بول چال میں مستعمل ہے۔” [۲]
زبانیں ہمیشہ اپنے تاریخی اور سماجی تقاضوں کے زیر اثر فطری طور پر پیدا ہو کر صدیوں کے مسلسل عمل سے پروان چڑھتی ہیں۔ ہندستانی زبانوں کے دو خاص خاندانوں دراوڑی اور ہند آریائی میں سے ہند آریائی خاندان کی زبانیں پورے شمالی ہندستان میں بولی جاتی ہیں۔ ڈھونڈھاری زبان پر اردو کے اثرات کو سمجھنے کے لیے لسانی رشتوں کے حوالے سے گفتگو کرنا بہتر ہوگا۔ چوں کہ زبان ایک متحرک وجود ہے اور کوئی بھی زبان بلا وجہ کسی غیر زبان کے الفاظ قبول نہیں کرتی جب تک کہ ان کے درمیان، یا ان کے بولنے والوں کے درمیان میل جول نہ رہا ہو۔ کسی علاقے کے باشندے جس قدر آپس میں قربت رکھتے ہیں، اتنی ہی ان کی زبانیں بھی ملتی جلتی ہو جاتی ہیں۔ انسان کے آپسی میل جول اور ان کے ایک جیسے جغرافیائی حالات جہاں عام زندگی میں اشتراکیت پیدا کرتے ہیں، وہیں ان کی زبانوں میں بھی مشترک اقدار پروان چڑھ کر انھیں ایک قبیلے کی شکل دے دیتے ہیں۔
ڈھونڈھاری زبان پر اردو کے اثرات کو سمجھنے کے لیے مغلیہ دور کے تاریخی پس منظر کو سمجھنا ہوگا۔ کیوں کہ پورے صوبے میں ڈھونڈھار(جے پور) ہی وہ علاقہ ہے جس نے سب سے پہلے مغلوں کی ماتحتی قبول کی۔ مغل بادشاہوں سے قرابت داری اختیار کی۔ دو بڑی مختلف تہذیبوں کو یکجا ہونے کا موقع ملا۔ مسلم تہذیب و تمدن کے اثرات ڈھونڈھار میں صرف سرکاری طور پر ہی نہیں بلکہ عوامی طور پر بھی نظر آنے لگے۔
راجستھان کا مشہور ہندی شاعر بہاری (ؔ۱۵۹۵۔۱۶۶۴ء) جے پور(ڈھونڈھار) راج گھرانے کا درباری شاعر تھا۔ اس کے دوہوں میں اردو کے بے شمار الفاظ ملتے ہیں:
چُھٹن نہ پیے یت شڑک وش نیہہ نگر یہ چال
مارے پھر پھر ماریت خونی پھرت خوس حال
یعنی جنون عشق کی یہ چال ہے کہ اس سے ایک پل بھی چھٹکارا نہیں ملتا۔ مرا ہوا مر مر کے جیتا ہے اور مارنے والا (معشوق) خوش حال رہتا ہے۔ اس دو ہے میں خونی اور خوش حال الفاظ صاف طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
ڈھونڈھاری پر اردو کے اثرات دیکھنے کے لیے سب سے پہلے ڈھونڈھاری لوک گیت اور دوہوں پر گفتگو کی جائے گی۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ ڈھونڈھاری زبان میں کبھی بھی لوک گیت کے علاوہ کسی قسم کے ادب کی تخلیق نہیں ہوئی ہے۔
مسلم تہذیب اور بول چال کا واضح اثر ڈھونڈھاری زبان پر ہوا۔ ایک نہیں ہزاروں الفاظ اپنی اصل شکل کی تبدیلی کے ساتھ آج بھی ڈھونڈھاری زبان میں مستعمل ہیں۔ کچھ الفاظ کی فہرست ذیل میں پیش کر رہا ہوں، جس سے دو زبانوں کے میل جول کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اردو ڈھونڈھاری اردو ڈھونڈھاری
زہر جہر قہر کہر
سحر سہر لہر لیر
رحم ریم محل میل
مہر میر جرمانہ جرمانو
باغ باگاں قطار کتاراں
پروانہ پروانو انعام انیام
قیمت کیمت عقل اکّل
خبر کھبر کاغذ کاگد
علم ایلم معاملہ ماملو
سیاہی سائی طرح تریں
ذائقہ جائیکو شاباش سیاباس
مزدور مجور نیلام لیلام
اِنسان اَنسان مطلب متبل
بہت سے ایسے الفاظ ہیں جو معمولی ردّو بدل کے ساتھ اپنا اصل مفہوم لیے ہوئے استعمال ہوتے رہے ہیں، جیسے:
مالِک مالَک دفتر دپھتر
خبر کھبر فرق پھرک
معلوم مالَم عِلم اِلَم
ڈھونڈھار کا مشہور ترین گیت ”ڈنگ جی جوارجی، رو گیت”ہے۔ اس گیت میں سیکر(شیخاواٹی) سے لے کر جے پور تک کے واقعات کا ذکر ہے۔ اس گیت کا مرکزی کردار ڈاکو ڈونگ سنگھ ہے، جس نے انگریزوں کے خلاف اپنا محاذ کھول رکھا تھا اور وہ عوام میں ایک ہیرو کی حیثیت سے مقبول تھا۔ اس گیت میں بے شمار اردو الفاظ تبدیلی اور بنا تبدیلی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ چند سطور اس گیت سے نقل کی جا رہی ہیں۔
جاجمؔ اور جاجم بچھ رہی، خوبؔ پڑے رجواڑ
سیٹھاں لکھ پروانو بھیج یو، بڑے ساب نے دینا (پروانو۔پروانہ۔صاحب۔ساب)
لوٹی مہاری لدی کتاراںؔ، لُوٹیو نو لکھ مال (کتاراں، قطار)
ڈونگ سنگھ مہارے لارے پڑیو، پکڑ کید کر لینا (کید۔قید)
دنیا میں نام کمایو، مونڈو ہوگیو کالو (دنیا۔نام۔کمایا)
بھان بہنوئی کے لاگے تُو، ‘دگا باج ‘ کو سالو (بہنوئی۔دغاباز)
درواجے کے مونڈے آگے، اڑی کھاٹ سُو کھاٹ
درواجے کی موری آگے خوب چلے تلوار [۴]
جے پور کے مہاراجہ سوائی جے سنگھ اول (۱۶۲۱۔۱۶۶۷ء)کے دور میں ایک مشہور شاعر ”بہاری” (۱۵۹۵۔۱۶۶۳ء) بھی تھا۔ جو درباری شاعر تھا اور راجستھانی (ڈھونڈھاری) کے علاوہ برج بھاشا کا بھی شاعر تھا۔ اس کی ایک راجستھانی تصنیف ”ست سئی” بہت مشہور ہے۔ جس میں سات سو تیرہ دوہے ہیں۔ ان دوہوں کے مطالعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سترہویں صدی کے نصف اول میں اردوکے بے شمار الفاظ علاقہ ڈھونڈھار میں استعمال کیے جاتے تھے۔
جیسے، سرتاج، فتح، سوغات، فوج، بے حال، محل وغیرہ۔
چند مثالیں بہاری کے دوہوں کی پیش کرتاہوں۔
نوناگری تنو مُلک لہی، یوون عامل زور
گھٹی بڑھتِ بڑھی گھٹِ رقم، کری اور کی اور
یعنی، یوون (جوانی) کی شکل میں (عامل) حاکم نے نو ناگری کا جسم جیسا ملک پا کر، اپنی طاقت سے گھٹنے بڑھنے والی چیز کو گھٹا بڑھا کر کچھ کا کچھ بنادیا۔ جیسے کمر کو گھٹا دیا، پستان اور کولہوں کو بڑھا دیا۔ عقل کو تیز کر دیا اور انسان کی فطرت کو کچھ کا کچھ کردیا۔[۵]
چند اور دوہے بطور نمو نہ پیش کر رہا ہوں:
اپنے انگ کی جانکِیوون نرپتی پروین
اِستن نینن نتمب کو بڑو اضافہ لیکن
اس دوہے میں ”اضافہ” اور”لیکن” الفاظ بغیر کسی تبدیلی کے استعمال ہوئے ہیں:
راجکماری نہ سو رہے مگدھا لائق بھوگ
تؤ مہی پتی بجیو بھول سکل سنجوگ
اس دوہے میں ”لائق” اپنی اصل شکل میں موجود ہے:
ساماں سینا سیان کی سبھی شاہ کے ساتھ
باہو بلی جے شاہ جو فتح تہارے ہاتھ
یعنی، سامان اور چالاک فوج سب دلّی کے شاہ کے ساتھ ہیں لیکن اے طاقت ور جے شاہ (راجہ جے سنگھ) فتح تمھارے ہی ہاتھ پر ہوگی۔ اس دوہے میں ساماں، ساتھ، فتح، ہاتھ، شاہ سب اردو کے مشہور الفاظ ہیں اور بغیر ردّو بدل کے استعمال ہوئے ہیں۔
اب آگے کی بات کریں تو اٹھارویں صدی کے نصف اول میں ڈھونڈھار میں جو شاعری کی جاتی تھی، وہ بھی ڈھونڈھاری زبان پر اردو کے اثرات کو واضح کرنے میں مستحکم ثبوت ہے۔
مہا کوی بہاری (۱۵۹۵ء۔۱۶۶۵ء) جو جے پور (ڈھونڈھار) کا درباری کوی (شاعر تھا) اس کے دوہوں اور چھندوں میں اردو کے الفاظ نظر آتے ہیں۔ ذیل میں کچھ مثالیں گلدستہ بہاری سے دی جا رہی ہیں جو ۱۹۲۵ء میں الٰہ آباد کے ساہتیہ سیوا سدن سے شائع ہوا تھا اور اسے منشی دیبی پرشاد پریتمؔ نے مرتب کیا تھا۔
تجو تیرتھ، بھجو ہری، رادھیکا کا جسم نورانی
تروینی جن کے کیلوں سے ہے پگ پگ مگ با آسانی
ہوا ٹھنڈی، گھنی کنج اور چھایہ لہلہاتی ہے
لبِ بحرِ جمن اب بھی وہی کیفیت آتی ہے
عبث گھیرے کھڑے شرمائیے جانے بھی گھر دیجیے
نہیں گورس کا رس، رسیا بنے گورس کا رس پیجیے[۶]
ناگری داس ناگرؔ (۱۶۹۹ء۔۱۷۶۵ ء) جے پور سے ریاست کشن گڑھ کا راجا تھا لیکن اس کو بے دخل کر دیا گیا تھا، اس نے دنیوی عیش و عشرت سے کنارا کر لیا تھا، جس کا زیادہ وقت جے پور اور برنداون میں گزرتا تھا۔ اس کے لکھے دوہے، ریختہ اور چھند میں جو ڈھونڈھاری زبان میں ہیں، اردو کے بے شمار الفاظ موجود ہیں۔ چند مثالیں پیش کر رہا ہوں۔ یہ مثالیں اور نمو نے “راجپوتانہ میں اردو، ریختہ اور دوہے” سے لیے گئے ہیں۔
ناگری داس ناگر(۱۶۹۹ ء۔۱۷۶۵ ء)ؔ کے مجموعے ”ناگر سموچے” (۱۸۹۸ء)سے انتخاب:
”ریختہ زبان کے دھر پدوں، خیالوں کی الاپ چاری میں دوہے۔”
دوہے:
اس ہی کی سنیں صفت کوں کسی زباں میں ہوئے
قادر نادر حسن کا، کرشن کہائے سوئے
اجلے میلے خلق میں پھیلے مذہب انیک
عشق باز سر تاج کوں عشق پیارا ایک
عشق باز ویسا نہ کوؤ، ویسا صورت خوب
ناگر موہن سانولہ، قدر دان محبوب
مزا مذہب جو خلق میں، سو دل کچھ نہ سُہائے
عجب اسی کے عشق کا پڑے غضب جب آئے [۷]
مہاراج پرتاپ سنگھ برج ندھیؔ۔(۱۷۶۴ ء۔۱۸۰۳ ء)ریاست جے پور، ”برج ندھی گرنتھاولی” (۱۹۳۳ء) سے انتخاب
ریاست جے پور کے راجہ پرتاپ سنگھ کشواہا خاندان کی سترہویں پیڑھی میں ۱۷۶۴ ء میں پیدا ہوئے۔ یعنی ناگری داسؔ کی موت اور راجہ پرتاپ سنگھ کی پیدائش ایک ہی سال میں ہے۔ راجہ پرتاپ سنگھ چودہ سال کی عمر میں ۱۷۷۸ ء میں راج گدی پر بیٹھے۔ ۱۸۰۳ ء میں دستوں کی بیماری سے انتقال ہوا۔
غزل کے شعر:
جہاں کوئی درد نہ بوجھے تہاں فریاد کیا کیجے
رہا لگ جس کے دامن سے تسے کہو یاد کیا کیجے
جو محرم دل کا ہو کر کے رکھائی دے تو کیا کیجے
وہ برج ندھیؔ کہا کر کے نہ برج رج دے تو کیا کیجے
ریختہ:
پیارے تمھاری چال بڑی عجب انوٹھی
ہم سے بناؤ باتیں بس جھوٹی جھوٹی
ہر چند بات بنی کیسے میں ایک نہ مانوں
نج دست میں سنبھالو یہ کس کی انگوٹھی
اس شب کہاں رہے تھے سو سچ بتاؤ
لوٹی تھی خوبی کس کی پیا بھر بھر مٹھّی
سن کر دیا جواب یہ ہنس برج ندھیؔ پیارے
مجھ کو تو پیاری ایک تو ہی، کیوں اب روٹھی [۸]
مذکورہ مثالوں کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو نے ڈھونڈھاری زبان پر اپنے نہ انمٹ اثرات مرتب کیے ہیں جو آ ج بھی قائم ہیں۔
مآخذ
(۱۔راجستھانی بھاشا شاستر۔ ڈاکٹر گو وند شنکر شرما۔راجستھانی ساہتیہ۔ بیکانیر۔ ۲۰۱۱ء۔ص۔۶۷)
(۲۔راجستھانی اور اردو۔ڈاکٹر فیروز احمد۔گلوبل اردو کمپیوٹرس،جے پور۔۲۰۱۰ء۔ص۔۳۱)
(۳۔راجستھانی ماتر بھاشا گیت۔بھنور لال ناہٹا۔نیو راجستھان پریس، کلکتہ۔۱۹۵۸ء۔ ص۔۲۱)
(۴۔کوی بہاری۔جگناتھ رتنا کار۔گرنتھ کار،بنارس۔۱۹۵۳ء)
(۵۔گلدستہ بہاری۔مرتبہ،منشی دیبی پرشاد پریتم۔ساہتیہ سدن،الٰہ آباد،سمّت۔۱۹۸۱۔)
(۶۔تمام دوہے اور ریختے۔راجپوتانہ میں اردو،ریختہ اور دوہے۔شاہد جمالی۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور۔۲۰۱۶ء۔)
(۸۔تمام دوہے اور ریختے۔راجپوتانہ میں اردو،ریختہ اور دوہے۔شاہد جمالی۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور۔۲۰۱۶ء۔)
Musawwir Ahmed
V/P Behter, Tehsil Malarna Doonger, Sawai Madhopur
Rajathan-322028