ادب اور فنون انسانی تخلیقی اظہار کے وسیلے ہیں۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ وسیلے موثر ثابت ہوئے ہیں اور آج بھی انفرادی اور اجتماعی احساسات کے سب سے کارآمد وسیلے ہیں۔ یہ چاہے ادب کی تخلیق کے ذریعے ہو یا پھر مصوری، نقاشی یا تھیٹر جیسے میڈیم کے استعمال کے حوالے سے اظہار حسیات کی کوشش ہو۔
آرٹ، فوٹوگرافی، فلم، فکشن، نان فکشن تحریریں، شاعری اور دیگر تخلیقی ذرائعِ اظہار، ہمیشہ انسانی حیات، اس کی آسودگی، نا آسودگی، بے زاری، تلاش اور حصول یابیوں کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ معاشرے میں خوش گمانی ہے تو “تجھ لب کی صفت لعل بدخشاں سے کہوں گا” اور اگر نامرادی اور مایوسی ہے تو پھر ‘شہر آشوب ‘اور ‘مزاحمت’ کے نعروں کی چیخ سنائی پڑتی ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں، یہ دونوں رویے اپنے تخلیقی ثبوت کے ساتھ کسی نہ کسی انداز میں معاشرے کے بیش تر افراد تک پہنچنے میں کام یاب ہوتے رہے ہیں اور ان رویوں کو معاشرے کے ہر طبقے میں رسائی بھی حاصل ہوتی رہی ہے اور قبولیت بھی۔ “جادو ہیں تیرے نین غزالوں سے کہوں گا”نے کہیں حیا کا رتبہ پایا تو کہیں “آباد رہیں گے ویرانے، شاداب رہیں گی زنجیریں”نے نا آسودگی، بے زاری اور نامرادی کی تعارضی آواز کی شکل اختیار کی۔
ویسے تو حالات کے زیر و بم اور معاشرتی احساس کو ہمیشہ مختلف رویوں سے گزرنا پڑا ہے اور مستقبل میں بھی گزرنا پڑے گا لیکن انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشیوں میں نغموں کا سہارا لیتا ہے اور نا آسودگی اور محرومی میں اس کی دلی کیفیات چیخ اور بلند بانگی کا وسیلہ اختیار کرتی ہیں۔ جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھتا جا رہا ہے، محبت کے اظہار کی لفظیات میں تبدیلی آتی جا رہی ہے اور ظلم اور ناانصافی کے خلاف تعارض اور مزاحمت کے بیانیے کم از کم اردو میں تو کم زور پڑتے جا رہے ہیں، ورنہ دوسری زبانوں اور معاشرے کی آوازوں کی بلند آہنگی اور برش کا تیکھاپن اپنی روایت کو مزید مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے۔
اصل میں حقیقت یہ ہے کہ حالات کی بے پناہی نے ہمارے دور اور ہمارے معاشرے کو بہت حد تک بے حس بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعارض سے اجتناب ہماری فکری کم زوری اور اجتماعی شعور کی شکست کا یہ ایسا شہر آشوب ہے جس کا اقرار تو ہم سب کو ہے لیکن آہستہ آہستہ نفسیات میں آنے والی تبدیلی نے بیانیے کی شدت میں کمی کر دی ہے۔ لیکن یہ بات خاطر نشان رہے کہ تخلیقی اظہار کا عمل چاہے بے سمتی اور کم صوتی آہنگ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہو، لیکن سفر تو بہرحال جاری ہے۔ ضرورت ہے تو اس کو منظم کرنے اور بامعنی سمت دینے کی۔
آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں اور ہمارا تہذیبی شعور جن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، یہ وہی حالات ہیں جن میں اردو میں ‘شہرآشوب’ لکھے گئے، ‘مہجری ادب’ کی تخلیق ہوئی اور “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” جیسے نعرے بلند کیے گئے۔ امریکہ میں بلیک لٹریچر کا سفر شروع ہوا اور فلسطین اور دوسرے عرب علاقوں میں مزاحمتی ادب کے شاہ کار سامنے آئے۔ ہندستان میں دلت لٹریچر کی ایسی شان دار روایت موجود ہے کہ ادب کا تعارضی انداز پورے طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے۔
یہ تو ہمیشہ سے رہا ہے کہ ادب کی قرأت کا دائرہ اور آرٹس کی تجریدیت کو سمجھنے کا شعور، ہماری آبادی کے ایک نسبتاً چھوٹے حلقے تک ہی اپنی رسائی حاصل کرتا رہا ہے اور اسی لیے کہا جاتا رہا ہے کہ چاہے ادب اور آرٹس کی معنویت کتنی بھی جھنجھوڑ دینے والی کیوں نہ ہو، وہ بذات خود دنیا کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ ان کا اصل کردار تو یہ ہوتا ہے کہ جو حالات کو تبدیل کرنے اور معاشرے میں بدلاؤ لانے کے لیے متحرک ہوتے ہیں اور جن پر دنیا کو بدل ڈالنے کا جنون سوار ہوتا ہے، ان کے لیے ایک موثر وسیلے کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کو تقویت پہنچاتے ہیں اور ان کو عملی میدان میں مستحکم کرتے ہیں۔ سارا کمال بیانیے اور پیش کش کا ہے۔
ادب دراصل ایک فرد کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے پیش رو کے عصری دائرے میں بہ آسانی قدم رکھے اور ان تجربات کو خود میں جینے کی کوشش کرے جو اس راہ سے پہلے گزرنے والوں نے محسوس کی اور پھر اپنے بیانیے کا حصہ بنایا۔ اس رابطے سے اپنے اقتدار اور روایت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح آرٹ تخلیقی اظہار کا وہ وسیلہ ہے جو ایک بصری اور مرئی شکل تراشتا ہے اور لوگوں، کسی وقوعےیا دفعتاً تجربے میں آنے والے احساسات کو نظروں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ سارا کمال بیانیے اور پیش کش کا ہے۔ جس انداز سےشاعر، ادیب یا آرٹسٹ اپنے ارد گرد کے بحران کی کہانی دوسروں کو سناتا یا دکھاتا ہے وہی کسی نہ کسی طرح سے معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی ردِ عمل کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اپنی حسیات اور اس کے اظہار کے اتنے وسیلے پہلے موجود نہیں تھے جتنے اب ہمیں حاصل ہیں یا پھر ہم میں لوگوں تک پہنچنے اور ان کو اپنے تجربات میں شریک کرنے کے اتنے رابطے میسر آ گئے ہیں کہ ہمیں تجربات کے اشتراک میں زیادہ پریشانی پیش نہیں آتی ہے۔ لیکن جدید میڈیا نے جس طرح اپنی قدر و قیمت تبدیل کی ہے ، اس سے عام لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوا ہے اور وہ غلطی سے سمجھنے لگے ہیں کہ ہر مسئلے اور سوال کا بروقت حل پیش کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وہ حل اتنا ناپائیدار ثابت ہوتا ہے کہ اس کی قدر کے تعین سے پہلے ہی اس کی شکل بدلنے لگتی ہے۔ اس لیے ہمیں ترسیل اظہار کی بہت ساری آسانیوں کے باوجود فرد کے اندر مچی ہل چل اور اس کی پیچیدگی کی تصدیق کے لیے عصری ادب کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے یا یوں کہیے کہ لینا پڑے گا۔ کیوں کہ اس کے ذریعے ہی ہم اپنی نئی نسل تک بلکہ ہر نئی نسل تک ماضی کے اقدار، اطوار، متعدد عقائد اور اپنی آسودگی اور چیخ کی بلندی کو ایک دستاویز کی شکل میں پہنچا سکیں گے۔ آنے والی نسل ہماری طرف اس دستاویز کی دستیابی کے لیے ہمیشہ نظریں اٹھاکر دیکھتی رہتی ہے۔ اب یہ نئی نسل کتنی بھی ریاکاری یا خود فریبی میں مبتلا ہو جائے لیکن اس میں کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے ہی جن کا ضمیر ان کو اپنے رد عمل پر قابو پانے کی صلاحیت کا اسیر نہیں ہونے دے گا، وہ اپنی تمام محرومیوں کے باوجو دتخلیقی ورثے کے دستاویزی آئینے کو اپنے ہاتھ میں لے کر سورج کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے دنیا دیکھنے پر مجبور ہوگی ۔ راویانِ روایت تو یہی کہتے ہیں۔ خوب جان لیجیے کہ ادب یا آرٹ، معانی کی لامحدود وسعت کے تمام راز فاش کردیتا ہے، انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا اور اس میں وہ طاقت پوشیدہ ہے کہ یہ اگر کسی کی تفریح کا ذریعہ بنتا ہے یا کسی کو بدقماش اور گم راہ بنا دیتا ہے، توہین کرتا ہے، خوف زدہ کرنے کے حربے استعمال کرتا ہے تو ترغیب وتحریک بھی دیتا ہے اور اس حقیقت سے جتنا بھی کوئی انکار کرے یا اس کے وجود پر سوال اٹھائے لیکن اس کے اثرات کبھی زائل نہیں ہوئے۔ تاریخ اس ضمن میں منہ کھولے کھڑی ہے۔
ہمارے یہاں زبان بندی کی جو ایک روایت رہی ہے، اس کا اگر سب سے زیادہ خسارہ ادب اور فنون کو ہوا ہے، تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اُس جبریہ اقدام کے خلاف سب سے زیادہ موثر لڑائی بھی اِسی حوالے سے لڑی گئی ہے۔ اور اس کو کام یابی بھی حاصل ہوئی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ زبان بندی کی جتنی کوششیں دور آمریت یا زمانۂ بادشاہت میں ہوئی اُس سے کسی طرح بھی کم عوام کے ذریعے چنی ہوئی جمہوری حکومتوں میں زبان بندی اور ظلم و ستم کی وارداتیں نہیں ہوئیں۔ دنیا کے دو سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں اس کی مثالوں کی بہتات مل جائے گی، بس فرق ہوگا تو اُس مخصوص دائرے کا جنھیں اپنی ضرورت اور خواہش کے مطابق منتخب کیا گیا ہے۔ لیکن یہاں بھی ادب اور فن نے اپنی ہار تسلیم نہیں کی، چاہے اُس کا اضمحلال صاف دکھائی پڑ رہا ہو۔ ساری کتابوں کو جلا ڈالنا اور ہر زبان کو مفلوج کر دینا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اگر اِس میں کوشش بھی کی جائے تو اِس کو ایک زمانہ درکار ہوتا ہے، اور آمریت کی کسی شناخت کی بالآخر ایک مخصوص عمر ہوتی ہے۔ آخر نازی کیوں کتابوں کو جلا ڈالنے کی بات کرتے تھے، اور جہاں اپنی پسند کی کتابیں نظر نہیں آتی تھیں ان کتابوں کے ذخیرے کو نذرِ آتش کرنے پر تلے رہتے تھے۔ اِس لیے نہیں کہ وہ کتابیں بُری تھیں، معاشرے میں فحاشی کو عام کر رہی تھیں یا تعلیم و تربیت کے نظام کر تباہ کر رہی تھیں، بلکہ وہ اِس لیے نذرِ آتش کی جارہی تھیں اور اُن مصنفوں کو انتہائی اذیت سے گزارا جا رہا تھا، کیوں کہ خود نازیوں کے لیے وہ کتابیں انتہائی خطرناک نظر آرہی تھیں۔ ان کے نزدیک وہ تخریبی مواد تھے اور ہٹلر نے اپنی فکر کا جو ایک دائرہ بنایا تھا، اُس دائرے سے باہر کی فکر لگتی تھیں۔ ہٹلر کی جانب سے فرمان جاری کر دیا گیا تھا کہ ہر وہ کتاب، کتابچہ اور پمفلٹ پوسٹر جسے کسی یہودی، کمیونسٹ، سو شلسٹ، انارکسٹ، لبرل، امن پسند یا مذہب پسندوں کی جانب سے شائع کیا گیا ہو، اُسے آگ کے حوالے کر دیا جائے، اسے عوام تک پہنچنے کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔ یہ رویہ صرف کتابوں، شعری مجموعوں، پوسٹروں اور پینٹنگز تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ وہ سارے مواد آگ کی نذر کیے جانے کے لائق تھے، جن کو نازی اپنی فکر اور اقدام کے لیے خطرناک سمجھتے تھے۔ میڈیا ہمیشہ کی طرح زرخرید غلام بنا ہوا تھا۔ ایک وزیر صرف میڈیا کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ ریڈیو پارٹی کا ترجمان اور حکومت کے سلسلے میں جھوٹے پروپگنڈے کی مشین بنا ہوا تھا۔ اخباروں میں سرورق پر ہٹلر کی تصویر اور اُس کی تعریف میں نثری قصیدے شائع ہوتے تھے اور اقدامی سطح پر یہودیوں، اقلیتوں اور مخالفین کو نہایت سنگ دلی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔
آخر ہٹلر، بلکہ ہر دور کا ہٹلر کیوں ان عام لوگوں سے ڈرتا ہے جو سڑکوں پر آ کرایک جداگانہ فکر اور اپنی بے پناہی کے قصے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے ہیں اور وہ قصے صرف ایک دوسرے سے زبانی روایت ہی نہیں بلکہ لوح و قلم سے بھی گزر کر آئے ہوتے ہیں، اور یہی تحریری قصے زیادہ خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ کہے ہوئے الفاظ کا اثر بالکل بروقت ہوتا ہے ، اُن کے اثرات بھی بے ساختہ رد عمل کی شکل میں سامنے آتے ہیں اور اُکساتے ہیں، لیکن جو لکھے ہوئے الفاظ ہیں یا کینوس پر اُتارے ہوئے جذبات ہیں، وہ بے ساختہ نہ سہی، لیکن اپنی پوری ذمے داری کے ساتھ لُک چھُپ کر بے شمار لوگوں تک پہنچنے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ نظم کی شکل میں، کہانی کا روپ دھار کر، اجتماعی ڈیکلریشن کے انداز میں۔ اور پھر ایک منظم اجتماعی شعور کے ساتھ ابھرتے ہیں اور اس دور کی تحریک بن جاتے ہیں۔